جمعرات، 9-مئی،2024
( 01 ذوالقعدہ 1445 )
جمعرات، 9-مئی،2024

EN

پاکستان میں اسمگلنگ ختم کرکے اربوں ڈالر کیسے بچائے جاسکتے ہیں؟

27 اپریل, 2024 14:38

وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ اور ایف بی آر کو حکم دیا ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ کے خلاف فوری کارروائیاں شروع کریں۔

پاکستان میں ایران پیٹرول اور ڈیزل کی ہوش ربا اسمگلنگ کی وجہ سے اٹک ریفائننگ یونٹس کی بندش اور اسٹوریج کی رکاوٹوں کی وجہ سے سپلائی چین کے میں خلل کے خطرات کے پیش نظر وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے کہا ہے کہ وہ دیگر اسٹیک ہولڈرز کے تعاون سے تیل کی اسمگلنگ کے خلاف فوری کارروائیاں شروع کرنے کی ہدایات دی گئیں ہیں۔

پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ کا اصل ذمہ دار کون ہے؟

ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں ایرانی خوردنی تیل کی مانگ میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا تھا کیونکہ ایران اپنے ملک میں خوردنی تیل پر غیرمعمولی سبسڈی دے رہا تھا، اس کا مفاد پرست عناصر نے فائدہ اٹھانے کیلئے خوردنی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ شروع کردی اور جب ایران کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ خوردنی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ مکمل طور پر بند کی جائے تو وہ اقدامات اٹھائے گئے کہ خوردنی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ صفر ہوگئی تھی، اس سلسلے میں  اسمگلرز سے چھڑپیں بھی ہوئیں اور دو درجن سے زائد افراد کو ہلاک بھی کیا گیا کیونکہ ایران کو اس اسمگلنگ سے ملین آف ڈالرز کا نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے۔

پاکستان کیلئے مصبیت یہ ہے کہ حکومت کسی کی ہوتی ہے اور فیصلے کوئی اور کرتا ہے لیکن اب پاکستان اس طرح سے چلانے کا متحمل نہیں ہے، فیصلہ کرنے والے اداروں نے پاکستان کی معیشت کو برباد کردیا ہے، ایک اندازے کے مطابق افغانستان، بھارت اور ایران سے ہونے والی اسمگلنگ سے پاکستان کے قومی خزانے کو سالانہ 25 بلین امریکی ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے، آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ سے سالانہ 10 ارب ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے جبکہ بعض رپورٹس بتاتی ہیں کہ روزانہ کم از کم 4000 میٹرک ٹن اسمگل شدہ تیل پاکستان میں داخل ہوتا ہے، جس سے پاکستان کے قومی خزانے کو روزآنہ لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جبکہ پاکستان کی وفاقی حکومت ایک ایک ارب ڈالر کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سمیت عرب بادشاہوں کی منت سماجت کرتی ہے، جس نے پاکستانی ریاست کو ایک مذاق بنادیا ہے، خلیج فارس کی عرب حکومتیں اب مالی امداد دینے کے بجائے ریاستی بینک میں امانتاً رقم رکھواتی ہیں اور سیاسی حکمرانوں کو ایسے نصحت کرتی ہیں اور ایسا رویہ اختیار کرتی ہیں، جیسے وہ قومی سطح کے پیشہ ور بھکاریوں ہوں، پاکستان کے حکمرانوں کیساتھ اس طرح کا رویہ پوری قوم کیلئے باعث ذلت ہے، اس موضوع پر ظرافت آمیز میمز بنانے کے بجائے بحیثت قوم ہمیں شرمندہ ہونا چاہیئے۔

اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے اسمگلنگ کے خاتمے کے لئے متعلقہ سول ایجنسیوں کو زیادہ سے زیادہ تعاون فراہم کرنے کے لئے یہ معاملہ دفاعی حکام کے سامنے بھی اٹھایا ہے، جس سے سینکڑوں ارب روپے کا سالانہ نقصان ہوتا ہے اور پیٹرولیم سپلائی چین کے کام پر  بھی منفی اثر پڑتا ہے، پاکستان میں عام انتخابات سے قبل پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم نے کراچی کے تاجروں سے ملاقات میں اسمگلنگ اور بالخصوص پیٹرولیم مصنوعات کی ایران سے پاکستان میں اسمگلنگ کے معاملے  کو غور سے سنا تھا اور یقین دلایا تھا کہ وہ اسمگلنگ کو صفر کی سطح پر لے آئیں گے مگر ابتک اُن کا وعدہ پورا نہیں ہوا لگتا ایسا ہے کہ ہمارے آرمی چیف سے زیادہ طاقتور تو اسمگلر ہیں، پاکستان میں اپنی معیشت کو ترقی کے راستے پر لانے کیلئے اسمگلنگ کی بیخ کنی کرنی ہوگی، سرحدوں پر فوج جتنی طاقت اور اختیارات ایف آئی اے اور آئی بی کو دینا ہوگی تاکہ یہ ادارے سرحدوں پر اسمگلنگ کو روک سکیں، اسی طرح سرحدی علاقوں کے تھانوں کو اضافی نفری ، اسلحہ اور حکومت کی جانب سے طاقت فراہم کی جائے تاکہ کوئی بھی طاقتور اُن سے ناجائز اور غیرقانونی کام نہ کراسکے، اس سلسلے میں بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخواہ حکومتوں کی دلچسپی ناگزیر ہے، بارڈر پر تعینات فورسز کو اسمگلنگ کا ذمہ دار ٹہرانا کافی نہیں ہے، اس کیلئے جوابدہ چاروں صوبائی حکومتیں بھی ہیں جو اسمگلنگ کو روکنے کی ذمہ دار ہیں، قوانین موجود ہیں جو پولیس کو انسداد اسمگلنگ کیلئے کام کرنے کا جواز دیتی ہے۔ شہباز شریف اگر اسمگلنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو انہیں بارٹر ٹریڈ کو فروغ دینا ہوگا، ایران کی پیٹرولیم مصنوعات کو مقامی کرنسی میں خریدے جو امریکی پابندیوں سے  پاکستان کو متاثر نہیں کرتا، کسٹم اور ڈیوٹیز  ٹیرف کو سرحدی تجارت کیلئے ایک چوتھائی ضرور کم کرنا پڑے گا تاکہ پاکستان پر ڈالر کا دباؤ نہیں پڑے اور عوام کیلئے سستی اشیاء تک رسائی ممکن بنائی جاسکے، یقین جانے اِن اقدامات سے پاکستان کے قومی خزانے کو 5 سے 15 ارب ڈالر کی انکم ہوسکتی ہے۔۔۔ اگر کچھ کرنے کی خواہش ہو تب۔

نوٹ: جی ٹی وی نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top