جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

چہرے کی شناخت کے ذریعے ادائیگی کرنے والی مستقبل کی دنیا

29 جنوری, 2021 16:40

ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ کسی سائنس فکشن فلم کا سین لگے لیکن چین کے مختلف شہروں میں اس طرح کی ادائیگیاں دن میں لاکھوں مرتبہ پہلے ہی ہو رہی ہیں

اس ٹیکنالوجی کو اب امریکہ اور دوسرے ممالک جیسے ڈنمارک اور نائجیریا میں متعارف بھی کرایا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم سب آیندہ چند برسوں میں اس کا استعمال کر پائیں گے؟ اور کیا اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے دوران ہمیں ڈیٹا سکیورٹی اور پرائیویسی کے معاملات کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے؟

18 سالہ یونیورسٹی کی طالبہ سارہ سٹیورٹ کا کہنا ہے کہ انھیں اس طرح کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ ٹیکنالوجی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ لوگ اس طرح کے استعمال کے بارے میں دوسری مرتبہ نہیں سوچتے۔

ہمارے فون ہمارے چہرے پڑھتے ہیں اور ہمارے چہرے پہلے ہی انٹرنیٹ پر موجود ہیں، لہذا میں نہیں سمجھتی کہ اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ یہ تیز رفتار ہے، زیادہ آسان ہے اور محفوظ ہے۔۔۔ اور آپ کو اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ اپنا فون یا کارڈز گھر پر چھوڑ آئے ہیں۔

امریکی ٹیک سٹارٹ ایپ ’پاپ آئی ڈی‘ کے ذریعے چہرے کی شناخت کے ذریعے رقم کی ادائیگی کرتی ہیں۔ آپ اس کی ویب سائٹ کے ذریعے اپنے چہرے کی تصویر اپ لوڈ کر کے سائن اپ کرتے ہیں، جو فرم کے ’کلاؤڈ بیسڈ سسٹم‘ میں محفوظ رہتی ہے۔ اس کے بعد آپ اپنے اکاؤنٹ کو اپنے بینک کارڈ سے لنک کر دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ ٹپ دینے کے لیے پاپ آئی ٹی کو استعمال کر سکتے ہیں جو کہ ہاتھ کے چند اشارے ہیں۔ سٹیورٹ نے اوپر کے طرف انگوٹھے کے نشان کو 10 فیصد ٹپ کے لیے، انگلیوں کے ذریعے وکٹری یا امن کے نشان کو 15 فیصد اور شاکا یا ’مجھے کال کرو‘ کے نشان کو 20 فیصد پر سیٹ کیا ہوا ہے۔

پاپ آئی ڈی کا دفتر لاس اینجلس میں ہے اور اب امریکہ کے مختلف شہروں میں تقریباً 70 ریستوراں اور کیفے اسے استعمال کر رہے، خاص طور پر ویسٹ کوسٹ پر۔

پاپ آئی ڈی کے چیف ایگزیکٹیو جان ملر کہتے ہیں کہ ’ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ادائیگی کے لیے اپنا چہرہ استعمال کرنا اپنا فون استعمال کرنے سے مختلف نہیں ہے۔

یہ صرف اپنی شناخت کا ایک اور طریقہ ہے۔ (سیل کے وقت لی گئی ڈیجیٹل) تصویر کو فوری طور پر ختم کر دیا جاتا ہے، اور ڈیٹا کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا۔

یہ موبائل فون کے ذریعے ادائیگی کرنے سے زیادہ محفوظ ہے کیونکہ فون جی پی ایس کے ذریعہ ہر وقت آپ کی لوکیشن کا سراغ لگا سکتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ پاپ آئی ڈی اصل تصاویر کو نہیں بلکہ چہرے کے منفرد ویکٹرز یعنی خطِ حامل کے ریاضیاتی نقشے محفوظ کرتا ہے۔

آج کل پاپ آئی ڈی کے استعمال کے لیے عارضی طور پر اپنا فیس ماسک نیچے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنا نظام اپ ڈیٹ کر رہی ہے تاکہ مستقبل میں ایسا نہ کرنے پڑے۔

لاس انجلیز میں بیٹھی سارہ کے برعکس، لنگ ٹیکنالوجی کے استعمال سے اتنی خوش نہیں ہیں۔ ان کو تشویش ہے کہ اس سے ان کی روزمرہ کی زندگی میں مداخلت بڑھتی جا رہی ہے اور وہ اسی وجہ سے اسے استعمال کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ٹیک جوار بھاٹا کی طرح ہے اور ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آپ اس کی مخالف سمت تیر سکیں۔

لیکن میں پھر بھی ایک قسم کا مؤقف اختیار کیے ہوئے ہوں، اور جب تک ہو سکے اس پر قائم رہوں گی۔‘
اگر سمجھا جائے کہ ٹیکنالوجی واقعی ایک جوار یا اونچی لہر ہے تو پھر چین میں چہرے کی شناخت کے ذریعے رقم کی ادائیگی کی ٹیکنالوجی کا رول آؤٹ واقعی ایک سونامی سے کم نہیں۔

چین میں تقریباً 98 فیصد موبائل کے ذریعے ادائیگیاں صرف دو ایپس سے کی جاتی ہیں۔

ایک ہے علی پے (جو علی بابا کی ملکیت ہے) اور دوسری ہے وی چیٹ پے۔ اور یہ دونوں ہی ملک بھر میں چہرے کی شناخت کے نظام کو لانے کی دوڑ میں مصروف عمل ہیں۔

یہ بھی پڑ ھیں:قیدیوں کی بائیو میٹرک شناخت میں تاخیر پر عدالت کا برہمی کا اظہار، تین نومبر کو رپورٹ طلب

وہ فون پر انحصار کرنا نہیں چاہتے، کیونکہ ایپل ایک ایسی کمپنی ہے جو انھیں دھمکا سکتی ہے۔ لہذا ادائیگی کے نظام کو براہ راست کارڈ سے چہرے پر منتقل کرنے کا خیال انھیں بہت دلکش دکھائی دیتا ہے۔

اس کے باوجود ملر تسلیم کرتے ہیں کہ چہرے کی شناخت کے ذریعے ادائیگی ایک ایسا خیال ہے جسے کچھ لوگ کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔

آبادی کا ایک طبقہ اسے کبھی نہیں اپنائے گا، اس سے قطع نظر کہ آپ فون سے اس کا موازنہ کرنے کے حوالے سے اس میں کتنی ہی منطق ڈال دیں۔ کیونکہ ان کے لیے یہ صرف ایک نفسیاتی (مسئلہ) ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top