جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

طالبان سے سروکار نہیں، ہماری معاشی حکمت عملی کا انحصار افغان امن پر ہے : وزیراعظم

29 جولائی, 2021 12:27

اسلام آباد : وزیراعظم کا کہنا ہے کہ طالبان جو کر رہے ہیں اس کا ہم سے کیا تعلق؟ طالبان سے ہمارا کوئی سروکار نہیں، ہم صرف افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے افغان تاجر، میڈیا نمائندگان سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل وفد سے ملاقات میں ان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے 5 اگست کو یو این قراردادوں کی خلاف ورزی کی، یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کی۔ بھارت نے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے نئے باب کا آغاز کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان 1948 سے کشمیریوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کر رہا ہے۔ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے اظہار تک کشمیر متنازع علاقہ ہے۔ 5 اگست کے اقدام کی واپسی تک بھارت سے بات چیت ممکن نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ہمیشہ بھارت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے، مگر بھارت امن نہیں چاہتا کیونکہ وہ آر ایس ایس نظریے کے زیر تسلط ہے۔ آر ایس ایس بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کر رہی ہے۔ یہی محرکات بھارت کے ساتھ امن میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اقدام کی واپسی تک افغان امن عمل میں بھارتی شمولیت ناقابل قبول ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان رہنماؤں کا پاکستان کو افغان بحران کا ذمہ دار ٹھہرانا افسوسناک ہے۔ ہمیشہ یہی مؤقف رہا کہ افغان مسئلے کا عسکری حل نہیں۔ افغان مسئلے کا حل سیاسی طریقے سے ممکن ہے۔ گزشتہ 15 سال سے اپنے مؤقف پر قائم ہوں۔ حکومت کواس مؤقف پر عسکری اداروں کی حمایت حاصل ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے افغان حکومت سے مذاکرات کیلئے طالبان کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ خطے کا کوئی ملک پاکستانی کوششوں سے برابری کا دعویدار نہیں ہوسکتا۔ اس کی تائید امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں غلط تاثر موجود ہے کہ پاکستان کو عسکری ادارے کنٹرول کرتے ہیں۔ طالبان جو کر رہے ہیں اس کا ہم سے کیا تعلق؟ آپ کو طالبان سے پوچھنا چاہیے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ طالبان کو حکومت میں نہیں ہونا چاہیے تو امریکی حمایت سے جنگ جاری رکھیں۔

یہ بھی پڑھیں : افغانستان کسی بھی ملک کے خلاف سرگرميوں کا اڈا نہيں بنے گا : طالبان

انہوں نے کہا کہ طالبان سے ہمارا کوئی سروکار نہیں، ہم صرف افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں مہاجرین آباد ہیں ہم کیسے چیک کرسکتے ہیں کہ ان میں طالبان کون ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ڈیورنڈ لائن کو خیال سرحد تصور کیا جاتا تھا، پاکستان نے سرحد پر باڑ لگائی اور سرحد کو محفوظ بنایا۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ افغانستان کو باہر سے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا تھا۔ افغانوں کی تاریخ ہے کہ وہ ہمیشہ سے آزادی پسند رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں، صرف امن چاہتے ہیں۔ چند طالبان رہنماؤں کے خاندان یہاں مقیم ہونے سے ہم صرف مذاکرت پر مجبور کرسکتے ہیں۔ ہم نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ فوجی کارروائی کی ہرگز حمایت نہیں کریں گے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ افغانستان میں امن چاہتا ہے۔ افغان امن سے پاکستان کو وسط ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل ہوگی۔ افغانستان میں ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں، صرف امن چاہتے ہیں۔ ازبکستان کے ساتھ مزار شریف، پشاور ریلوےلائن کیلئے معاہدہ کرچکے ہیں۔ ہماری مستقبل کی معاشی حکمت عملی کا انحصار افغان امن پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیف سٹی کیمروں کے مطابق افغان سفیر کی بیٹی خود ٹیکسیوں میں بیٹھی۔ ان کے مؤقف میں تضاد ہے۔ افغانستان سے ایک ٹیم آرہی ہے، اس کیس سے متعلق تمام معلومات فراہم کریں گے۔

وزیراعظم نے صحافی کے سوال کے جواب میں سوال رکھا کہ کوئٹہ اور پشاور شوری کہاں ہیں؟ جب قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ہو رہے تھے تو انہیں یہ شوریٰ نظر کیوں نہیں آئی؟ دنیا کی عظیم فوجی اتحاد نیٹو کو ڈیڑھ لاکھ فوج کے ساتھ افغانستان میں ناکامی ہوئی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکا ہم پر دباؤ ڈالتا رہا کہ شمالی وزیرستان میں طالبان کے ٹھکانے ہیں۔ بالآخر ہم نے 2014 میں کارروائی کی، جس کے نتیجے میں 10 لاکھ لوگ شمالی وزیرستان سے بے گھر ہوئے، لیکن اس آپریشن کا امریکہ کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ امید ہے افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ افغانستان میں امن سے پاکستان کو وسطی ایشیائی منڈیوں تک رسائی ہوگی۔ وسطی ایشیائی ریاستوں کو کراچی اور گوادر بندرگاہ سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top