جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

رحیم یار خان کے مندر کی بحالی اور حملے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم

06 اگست, 2021 13:54

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے رحیم یار خان مندر حملے کے ملزمان فوری گرفتار کرنے اور مندر بحالی کے اخراجات بھی ملزمان سے ہر صورت وصول کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ میں رحیم یار خان مندر حملہ از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ آئی جی پنجاب، چیف سیکریٹری پنجاب اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے موقع پر چیف جسٹس گلزار احمد نے آئی جی پنجاب انعام غنی اور چیف سیکریٹری کی سرزنش کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مندر پر حملہ ہوا، انتظامیہ اور پولیس کیا کر رہی تھی۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ اے سی اور اے ایس پی موقع پر موجود تھے۔ انتظامیہ کی ترجیح مندر کے آس پاس 70 ہندو گھروں کا تحفظ تھا۔ مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کام نہیں کر سکتے تو ہٹا دیں۔ ایک نو سال کے بچہ کی وجہ سے یہ سارا واقعہ ہوا۔ اس واقعہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی۔ پولیس نے ماسوائے تماشہ دیکھنے کے کچھ نہیں کیا۔

جسٹس قاضی امین نے آئی جی سے استفسار کیا کہ کیا کوئی گرفتاری کی گئی؟ جس پر آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے کہا کہ وزیر اعظم نے بھی معاملہ کا نوٹس لے لیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس واقعہ کو تین دن ہو گئے ایک بندہ پکڑا نہیں گیا۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پولیس اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوئی۔ پھر پولیس ملزمان کی ضمانت اور صلح کروائے گی۔ سرکاری پیسہ سے مندر کی تعمیر ہو گی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ واقعہ پر پولیس کی ندامت دیکھ کر لگتا ہے پولیس میں جوش ولولہ نہیں۔ پولیس کے پروفیشنل لوگ ہوتے تو اب تک معاملات حل ہو چکے ہوتے۔ ہندوو کا مندر گرا دیا، سوچیں ان کے دل پر کیا گزری ہو گی۔ سوچیں مسجد گرادی جاتی تو مسلمانوں کا کہا ردعمل ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں : بلاول کا مندر میں توڑپھوڑ میں ملوث افراد کیخلاف کارروائی کا مطالبہ

چیف جسٹس نے کہا کہ کہا گیا کہ آٹھ سالہ بچے نے لائبریری میں پیشاب کیا، جسٹس قاضی امین نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہندو بچے کا تشدد سے پیشاب نکلا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس نے آٹھ سالہ بچے کو گرفتار کیوں کیا؟ آئی جی پنجاب نے کہا کہ بچے کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

اعلیٰ عدلیہ نے ریمارکس دیئے کہ آٹھ سالہ بچے کو مذہب کا کیا پتا؟ کیا پولیس والوں کے آٹھ سال کے بچے نہیں ہوتے؟ کیا پولیس کو آٹھ سالہ بچے کے ذہن کا اندازہ نہیں؟ بچے کو گرفتار کرنے والے ایس ایچ او برطرف کریں۔ آئی جی پنجاب نے متعلقہ ایس ایچ او کو برطرف کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بیوروکریسی صرف تنخواہیں اور مراعات لے رہی ہے۔ قابل افسران ہوتے تو اب تک مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ انتظامیہ کو فارغ کریں وہ صرف زندگی انجوائے کر رہے ہیں۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ دنیا بھر کی پارلیمنٹس واقعہ پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ اقلیتوں کو تحفظ کا احساس ہونا چاہیے۔

چیف سیکریٹری پنجاب نے کہا کہ بے لگام سوشل میڈیا مسئلے کی بنیادی وجہ ہے۔ عبدالرزاق سومرو نامی شخص نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی۔ گزشتہ محرم میں بھی کافی لوگوں کو سوشل میڈیا پوسٹس کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ زیادہ تر حملہ آور کچے کے علاقہ سے آئے تھے۔ حملہ آوروں نے پہلے الم نذر آتش کیا۔ پھر مندر گئے۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ مسجد امام بارگاہ اور مندر ساتھ ساتھ ہیں۔ متاثرہ علاوہ میں حالات آئیڈیل تھے کبھی بدامنی نہیں ہوئی۔

سپریم کورٹ نے مندر حملے کے ملزمان فوری گرفتار کرنے، شرپسندی پر اکسانے والوں کیخلاف کارروائی اور مندر بحالی کے اخراجات بھی ملزمان سے ہر صورت وصول کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ دندناتے پھرتے ملزمان ہندو کمیونٹی کیلئے مسائل پیدا کر سکتے۔ یقینی بنایا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔

سپریم کورٹ مے کمشنر رحیم یار خان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ علاقے میں قیام امن کیلئے ویلج کمیٹی بنانے کی ہدایت کردی اور آئی جی اور چیف سیکریٹری سے ایک ہفتے میں پیشرفت رپورٹ مانگ لی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top