جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

ایک اور حادثہ یا پھر نااہلی کا ایک اور مظاہرہ

07 جون, 2021 16:38

ایک اور حادثہ ہوگیا بلکہ سانحہ ہوگیا ۔ سمجھ سے بالاتر ہے حادثہ ہو کیسے جاتا ہے اتنے بڑے بڑے افسر اس نظام کو چلارہے ہیں ۔بڑے بڑے عہدوں پر فائز افسر ان کم وسائل کے باوجود انتہائی محنت کرتے ہیں اور نظام ریلوے کی گاڑی کو اپنے مضبوط ہاتھوں سے کھنچ رہے ہیں۔

 

لیکن پھر بھی اتنی دل جمعی اور محنت مشقت کے بعد بھی یہ حادثے آخر ہو کیسے جاتے ہیں۔ ایک اور حادثہ پھر ہوا اور درجنوں قیمتی جانیں لے گیا۔ حادثہ ہوجاتا ہے پوری دنیا میں کسی بھی مقام پر ہوتا ہے ۔

 

کسی حادثہ کے پیچھے ٹیکنیکل فالٹ ہوتا ہے تو کسی حادثے کے پیچھے انسانی غلطی ہوتی ہے۔لیکن پاکستان میں جتنے حادثے ہوتے ہیں اس کے پیچھے ٹیکنیکل فالٹ ہوتا ہے جو انسانی غلطی کی وجہ سے ہوتا ہے اور وہ انسانی غلطی کسی نہ کسی کی نااہلی کی وجہ سے ہوتی ہے اب وہ اوپر والے افسران ہوں یا نیچے والے۔

 

اس بارے میں پڑھیں : کراچی کی بجلی اور بجلی گرانے والا ادارہ

 

تادم تحریر 40افراد اس حادثے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ اطلاعات یہ بھی ہے کہ ایک بارات بھی اس حادثے میں نشانہ بنی ہے ۔ اس کے علاوہ ہر مرنے والے کی اپنی کہانی ہے۔ کوئی باپ اپنےبچوں کے لئے کھلونے لےکر جارہا ہوگا۔

 

کوئی بیٹا اپنے والدین اور بیٹے کے لئے تحفے تحائف لے کر جارہا ہوگا۔ کوئی فیملی کئی برسوں بعد اپنے خاندان والوں سے ملنے جارہی ہوگی ۔کوئی دوست اپنے دوست سے ملنے جارہا ہوگا۔

 

مگر یہ سب اپنے ارادوں میں ناکام ہوگئے اور اس کے پیچھے صرف اور صرف ریلوے کے افسران اور کام کرنے والوں کی نااہلی ہے۔ حادثے اگر کئی سالوں میں ایک دو بار ہوں تو سمجھ آتا ہے کہ ممکن ہے کچھ تیکنیکی مسئلہ ہوگیا ہو لیکن اگر یہ حادثات تواتر کے ساتھ چند مہینوں کےوقفے سے ہوتے رہیں تو یہ نااہلی کے زمرے میں آئیں گے ۔

 

Train crash kills over 41, injures 100 in Sindh's Ghotki

 

 

حادثہ ہوجاتا ہے اور پھرتکرار کے ساتھ وہ ہی جملے سننے میں آتے ہیں جو ہر حادثے کے بعد کے خاص جملے ہوتے ہیں۔

جیسے” ٹرین کے خوفنا ک حادثے پراظہار افسوس، فوری تحقیقات کا حکم ، 6 رکنی کمیٹی بنادی گئی جو 48 گھنٹے میں رپورٹ پیش کریں گی، غفلت برتنے والے افسران کوقرار واقعی سزا دی جائے گی، مرنے والے افراد کے لئے 10 لاکھ اور زخمیوں کے لئے2 لاکھ کا اعلان ، پوری قوم اس واقعے پر سکتے میں ہیں۔”

 

یہ وہ جملے ہیں جو ہر حادثے کے بعد بولے جاتے ہیں اور جو یہ جملے بولتے ہیں ان کو بہت اچھی طرح ان حادثوں کی وجوہات کا علم ہوتا ہے مگروہ اس بوسیدہ نظام کا خود بھی حصہ ہوتے ہیں اس لئے ان میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہوتی کہ وہ حادثے کی سچائی کا بتا سکیں۔

 

یہ پڑھیں : کراچی کا نوحہ 

 

سال میں ایک حادثہ ہو تو حادثہ ہوتا ہے مگر سال میں درجن بھر حادثات ہوں تواس کے پیچھے مجرمانہ غفلت ہوتی ہے۔ مجرمانہ غفلت کے مظاہرے سال میں کئی بار ہوتے ہیں مگر نا اہل ڈھٹائی کے ساتھ اپنی کرسیوں پر چپکے رہتے ہیں۔

 

واقعے کے چند دن تک تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ جس نے غلطی کی ہے اس کو تو سزا ملی ہی ملی مگر بس چند دن کےدکھاوےکی تحقیقات اور پھر فائل بھی الماریوں کی نذر ہوجاتی ہے اور یہ ہی ہمارے بوسیدہ نظام کا وہ سلسلہ ہے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے مگر کوئی شنوائی نہیں۔

 

حادثے میں مرنے والوں کے ریٹ لگا کر ایسے دکھاتے ہیں کہ گویا ذمہ داری پوری ہوگئی ہے۔ نہ جانے کب اس قاتلانہ نظام کر نکیل ڈلے گی ،ناجانے کب تک یہ بڑے نااہل اسی طرح اداروں پر قابض رہیں گے ، آخر کب ؟

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

 

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top