جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

وہ بائیک چلارہی ہے ، گھورنا بند کریں

04 جنوری, 2023 15:53

میرے بہت اچھے دوست ہیں ، ان کی چار بیٹیاں ہیں ۔ وہ بیٹے کی خواہش رکھتے تھے مگر قدرت نے ان کے لئے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ اب ان کی چوتھی بیٹی بھی 5 سال کی ہے۔ ان کی تین اور بیٹیاں ہیں ، مگر وہ بیٹیاں بہت سے ایسے کام کرتی ہیں جو گھر کے بیٹے کرتے ہیں ، جیسے ایک پاؤ دہی لانا ، دودھ ڈبل روٹی لانا ، تندور کی روٹیاں لانا اور اماں کو بازار لے جانا۔

 

اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ وہ یہ سارے کام بائیک پر کرتی ہیں اور وہ بھی پیچھے بیٹھ کر نہیں بلکہ بائیک چلا کر۔یہ لڑکیاں جو بائیک چلاتی ہے وہ اسکوٹی بائیک نہیں ہے بلکہ ہماری والی بائیک کی طرح 70 بائیک ہی ہوتی ہیں اور وہ لڑکیاں سارے کام کرتی ہیں ۔

 

یہ پڑھیں  : جشن کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں !

 

یہ ایک دو لڑکیوں کی کہانیاں نہیں بلکہ اب یہ کہانی سینکڑوں لڑکیوں کی کہانی بن چکی ہے۔ جو باقاعدہ بائیک چلاتی ہیں اور اپنے روز مرہ زندگی کے کام کرتی ہیں ۔ وہ یونیورسٹی ہو، وہ آفس ہویا کوئی اور کام اب وہ خود بائیک نکالتی ہیں اور چل پڑتی ہیں۔

 

اس سے بہت سے فوائد حاصل ہورہےہیں ۔ جیسے ہر کام کے لئے مردوں پر انحصار کیا جاتا تھا کیونکہ و ہ گا ڑی  یا بائیک پر لے جاتے تھے لیکن خود چلانے سے یہ فائدہ ہوا کہ وہ خود سے اپنے کام کریں گی اور پھر زیادہ پروڈکٹیو ہوسکیں گی۔

 

کراچی شہر میں پہلے یہ منظر گاہے گاہے نظر آتے تھے مگر اب یہ مناظر مسلسل نظرآتے ہیں ۔ یہ مناظر عام ہونے کے باوجود بھی بہت سے لوگوں کے لئے حیران کُن ہیں۔ بالخصوص مخصوص ذہنیت رکھنے والے بہت سے مردوں کے لئے یہ منظر مسلسل گھورنے کا سامان بن جاتا ہے۔

 

لیکن ان گھورنے والے مردوں کو کوئی یہ بات سمجھائیں کہ یہ بھی سواری ہے دوسری سواریوں کی طرح ، تو اپنی نظرے نیچی رکھیں اور کسی کے کانفیڈنس کو نقصان نہیں پہنچائیں ۔

 

 

گھورنے کی عادت پاکستانی مردو ں میں اجتماعی عادت بن گئی ہے اور یہ کسی صورت نہیں چھوٹتی۔ بالخصوص گھر کی خواتین کے بارے میں جتنی احتیاط یہ کرتے ہی  اتنی ہی بے احتیاطی اور بے اعتنائی باہر کی خواتین کےبارے میں رکھتے ہیں۔

 

بائیک چلانا صرف خواہش ہی نہیں بلکہ ضرورت بن گئی ہے۔ دوسرے شہروں  میں کسی حد تک ٹرانسپورٹ کے مسائل کم ہیں مگر کراچی میں ٹرانسپورٹ کےمسائل بہت زیادہ ہیں ۔

 

بہت عرصے بعد کچھ بسیں آئی ہیں ، مگر وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی کمی یا پھر مہنگی ٹرانسپورٹ نے خواتین کے لئے دوہرے مسائل کھڑے کردئیے تھے۔

 

کچھ لڑکیوں نے ہمت کی ،بائیک کا سہارا لیا اور اپنی زندگی کو آسان بنالیا ۔ یہ خواتین نہ صرف روز روز کی خؤاری سے بچ گئی بلکہ اپنی سیلری کا بہت سارا حصہ بچابھی گئی۔ کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں وقت کے ساتھ ساتھ پیسے بھی زیادہ لگ رہے تھے مگر اب ان دونوں چیزوں کی اچھی خاصی بچت بھی ہورہی ہے۔

 

یہ پڑھیں  : کراچی شہر کی منہ بولتی سڑکیں 

 

آخرمیں سڑکوں پر موجود خونخوار مرَدوں سے بس اتنی گزارش ہے کہ اپنی نظروں سے اچھے کام لے اور گھورنے کا کام چھوڑ دیں۔ آگے چلتی بائیک اور سڑک پر نظرے مرکوز رکھیں تاکہ اخلاقی حادثے سے بھی بچ سکیں۔

 

نوٹ: جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top