جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

سپریم کورٹ : ملک میں ایک ساتھ انتخابات کیس کی سماعت مکمل

05 مئی, 2023 15:29

اسلام آباد : چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ہدایت دیں گے نہ ہی مذاکرات میں مداخلت کریں گے۔ اگر چند دنوں میں معاملہ حل نہ ہوا تو پھر دیکھ لیں گے، عدالت نے سماعت مکمل کرلی۔

سپریم کورٹ میں ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے حوالے سے درخواست پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جس میں جسٹس اعجاز الحسن جسٹس منیب اختر بیچ میں شامل ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیےئ کہ اسحاق ڈار نے جواب میں لکھا ہے کہ سیاسی معاملہ سیاسی لوگوں کو دیکھنے دیا جائے۔ یہاں پر قانونی معاملہ ہے، سیاسی نہیں۔ مذاکرات کا معاملہ سیاسی ہے، یہ درخواست پر آپ کی اپنی مرضی ہے کہ مذاکرات کریں۔

عدالت نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے۔ آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کیلئے آئین استعمال کرسکتے ہیں۔ عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے۔ کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا۔ عدالت نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لئے ہم غصہ نہیں کرتے۔ ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو جائزہ لیں۔ جو بات یہاں ہو رہی ہے، اس کا لیول دیکھیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت کو 90 روز میں انتخابات والے معاملے کا جائزہ لینا ہوگا۔ انتخابات کیلئے نگراں حکومتوں کا ہونا ضروری ہے۔ منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا۔ یہ نظریہ ضرورت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں : اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن کی تاریخ پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا : شاہ محمود قریشی

چیف جسٹس نے کہا کہ 23 فروری کا معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں۔ یہ سارے نکات اس وقت نہیں اٹھائے گئے۔ آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں تو عدالت نے سنا ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دوسرے راؤنڈ میں آپ نے بائیکاٹ کیا تھا۔ کبھی فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ آپ چار تین کی بحث میں لگے رہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا، حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں، کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ قرضوں میں 78 فیصد، سرکولر ڈیٹ میں 125 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ سیلاب کے باعث 31 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، ائی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری لازمی ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن انتخابات پر اتفاق ہوا۔  اسمبلی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو حکومت تیار ہے۔ ہر حال میں اسی سال ایک دن الیکشن ہونے چاہییں۔ سندھ اور بلوچستان اسمبلی قبل از وقت تحلیل پر آمادہ نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر فریق کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑتی ہے۔ مذاکرات میں کامیابی چند روز میں نہیں ہوسکتی۔ مزید وقت درکار ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدہ پر زور دیا گیا۔ عدالت میں ایشو آئینی ہے، سیاسی نہیں۔ سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ بجٹ کیلئے ائی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے۔ اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا۔ پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو بحران نہ اتا۔ بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے۔ افہام و تفہیم سے معاملہ طے ہوجائے تو بحرانوں سے نکات مل جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں : عمران خان کی میانوالی کی نشست پر ضمنی الیکشن روکنے کے حکم میں 11 مئی تک توسیع

چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایم ایف قرضہ ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر بھی بجٹ کیلئے آئین چاہ ماہ کا وقت دیتا ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے سپریم کورٹ کے روبرو کہا کہ  سیلاب اور محترمہ بینظیر کی شہادت پر انتخابات میں تاخیر ہوئی۔ اگر حکومت نے کوئی قانونی نقطہ نہیں اٹھایا تو عدالت ازخود ان پر غور کرے۔ کئی ماہ سے 63 اے والا نظرثانی کیس زیر التواء ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 63 اے والی نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر ہو رہی ہے۔ اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے آگاہ کردیا گیا ہے۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں شفاف الیکشن ہوں اور سب ان نتائج کو تسلیم کریں۔ مذاکرات میں طے ہوا ہے کہ یہ لوگ نتائج تسلیم کریں گے۔ سندھ اور بلوچستان میں اسمبلیاں بہت حساس ہیں۔ دونوں اسمبلیوں کو پنجاب کیلئے وقت سے پہلے تحلیل کرنا مشکل کام ہے۔

لیگی رہنماء نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کھلے دل سے مذاکرات کیے اس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ مذاکرات کا مقصد وقت کا ضیاع نہیں ہے۔ مذاکرات جاری رکھنے چاہییں، یہ میری تجویز ہے۔ عدالت کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اپنی مدت سے حکومت ایک گھنٹہ بھی زیادہ نہیں رہنا چاہتی۔ ملک کی قیمت پر الیکشن نہیں چاہتے۔ مستقل کوئی بھی عہدے پر نہیں رہنا چاہیے، آپ ہوں یا ہم۔ نہ پہلے والا مارشل لاء ہے نہ گزشتہ دور کا نقاب پوش مارشل لاء ہے۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اپنا ہاتھ روک کر بیٹھی ہے، کیونکہ حالات سازگار نہیں ہیں۔ بڑی بڑی جنگوں کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ترکی میں زلزلے کے دوران بھی الیکشن ہو رہے ہیں۔ آپ کی باتوں سے لگتا ہے آئین نہیں توڑنا چاہتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کی جو بات کی گئی ہے، سیاسی ہے، لیکن عدالت کو لکھ کر نہیں دی گئی۔ عدالت کے سامنے صرف فنڈز اور سیکورٹی کا معاملہ اٹھایا گیا۔ کم ازکم فنڈز تو جاری ہوسکتے تھے۔ نیک بیتی دکھانے کیلئے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ سیکورٹی پر عدالت کو ان کیمرہ بریفنگ دی گئی۔ 8 اکتوبر تک سیکورٹی ٹھیک ہونے کی کیا گارنٹی تھی۔ صرف مفروضوں پر الیکشن کی تاریخ دی گئی ہے۔ بارہ اگست کو اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو بارہ اکتوبر تک الیکشن ہوں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بجٹ تو مئی میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں۔ لازمی تو نہیں کہ بجٹ جون میں ہی پیش کیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب اپ کی باتوں میں وزن لگ رہا ہے۔ آپ چاہتے ہیں عدالت سوموٹو نکات اٹھائے۔ ہم نے سوموٹو لینے چھوڑ دیئے ہیں۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ سوموٹو کے نتیجے میں پنجاب میں الیکشن کی تاریخ آئی۔ عدالت خود بھی اس نقطے پر غور کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے علاوہ کوئی سنجیدہ نقطہ نہیں اٹھانا چاہتا ہے۔ ابھی تک چار تین کی ہی بات چل رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : الیکشن ایک سیاسی جماعت کی بجائے تمام جماعتوں کی مشاورت سے ہو : سراج الحق

چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں فریقین کو لچک دکھانی چاہیے۔ امتحان سے نکل سکتے ہیں، اگر آپ کا اتفاق رائے ہو جائے تو۔ اللہ نے امتحان مقرر کیا کیا ہے، تو ہمارے ساتھ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ بات دو اور ہفتوں کی رہ گئی ہے۔ باتوں کیلئے بھی زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ ایسا نہ ہو ہم باتیں کرتے رہ جائیں۔ مذاکرات جاری رہیں تو اتفاق رائے ہوسکتا ہے۔ عدالت ہدایت نہ دے ہم خود مل بیٹھیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ہدایت دیں گے نہ ہی مذاکرات میں مداخلت کریں گے۔ اگر چند دنوں میں معاملہ حل نہ ہوا تو پھر دیکھ لیں گے۔ کیا نظرثانی اپیل دائر کرنے کی مدت ختم ہوچکی ہے؟ نظرثانی اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔

وکیل شاہ خاور نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے نظرثانی اپیل دائر کر رکھی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل قابل سماعت ہے؟ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ صرف فنڈز اور سیکیورٹی چاہیے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اور عمران خان مذاکرات میں شامل ہوں تو حل نکل سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم اور عمران خان مصروف لوگ ہیں، ان کے نمائندے موجود ہیں۔ پارٹی لیڈران کیلئے سیاسی قائدین سے بات کریں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ مذاکراتی ٹیموں کو ہی بات کرنے دی جائے۔ عدالت کو مذاکرات میں نا لایا جائے، پہلے ہی کافی خرابی ہو گئی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت نے کوئی نئی بات نہیں کی، پرانا مؤقف دہرایا ہے۔ اپنی پوری کوشش کی کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکیں۔ حکومتی بینچز سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور تکبر والی باتیں آ رہی ہیں۔ ہماری متفرق درخواست پر تمام کمیٹی ارکان کے دستخط ہیں۔ حکومتی جواب میں صرف اسحاق ڈار کے دستخط ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور حکومت کی آپس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عدالت کو صرف یہ دیکھنا ہے کسی تاریخ پر اتفاق ہوا یا نہیں۔ کیا دو یا تین دن میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے؟

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت کہتی تھی بارہ جماعتیں ہیں مشاورت کیلئے وقت دیں۔ عمران خان سمیت سب نے تنقید کی کہ تین دن کا وقت کیوں دیا؟ تیسری نشست دن گیارہ بجے ہونی تھی لیکن رات نو بجے ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں : الیکشن کمیشن کی نظر ثانی اپیل دائر، پنجاب انتخابات 14 مئی کو کرانا نامکمن قرار

پی ٹی آئی رہنماء نے کہا کہ نظرثانی یہ نہ دائر کریں، مرضی کی مہلت بھی لیں، فیصلہ نہ ہو تو آئین کیوں داؤ پر لگائیں؟ آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی پیشرفت نہیں ہورہی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایم ایف والا معاملہ نہ ہمیں معلوم ہے نہ سننا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اپنے فیصلے پر عمل کرانے کیلئے آئین استعمال کرسکتے ہیں۔ عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے۔ کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا۔ عدالت نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لئے ہم غصہ نہیں کرتے۔

سپریم کورٹ نے ایک ساتھ انتخابات کرانے کی سماعت مکمل کرلی۔ عدالت نے کہا کہ سماعت سے متعلق مناسب حکم جاری کریں گے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top