جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

ادب کی بلند صدا خاموش ہوگئی !

13 فروری, 2023 16:41

کچھ ایسی آوازیں ہوتیں ہیں جو کان سے نہیں دل سے ٹکراتی ہیں اور پھر اس کا رس رُوح میں گُھل جاتا ہے۔کچھ لہجے ایسے ہوتے ہیں جو سنے نہیں جاتے بلکے محسوس کئے جاتے ہیں ۔ ایک خوبصورت و نایاب آواز ، کمال انداز بیاں ، سحر انگیز لہجے کے مالک جناب ضیا محی الدین ہم سے بچھڑگئے گویا ادب کا بڑاباب بند ہوگیا ۔

 

ادب کی صدا ، بلند صدا خاموش ہوگئی۔ گزشتہ چند سال ادب شناس اور ادب مزاج لوگوں کے لئے بڑا تکلیف دہ رہے ۔ کیونکہ ادیب مررہے تھے، ادب گھٹ رہا تھا، تہذیب معدوم ہورہی تھی۔ علم بردار تہذیب خاموش ہورہے تھے اور بد تمیز و بے ادب مشہور، گویا اب اس بستی میں جہالت اور زور سے بلند ہوگی۔

 

Zia Mohyeddin - Alchetron, The Free Social Encyclopedia

 

ضیا صاحب جنھوں نے اپنے نام کے ساتھ خوب انصاف کیا اور ادب کے چراغ کو خوب روشنی دی، گویا ضیا خاموش نہیں ہوا بلکہ آفتاب ادب غروب ہوگیا ۔ جو اپنی انگریزی پر نازان تھے انھیں اردو سے پیار ہوا تو وجہ ضیا صاحب تھے۔

 

جو اردو سے بھاگتے تھے وہ ضیاء صاحب کو سننے دوڑتے چلے آتے تھے۔آواز میں دبدبہ ہوتا ہے یا پھر وہ میٹھی ہوتی ہے مگر ضیا صاحب کی آواز میں بیک وقت یہ دونوں خوبیاں محسوس کی جاسکتی تھی۔ ان کے لہجے میں عجب سرور تھا جو سننے والوں پر سحر طاری کردیتا تھا۔

 

یہ پڑھیں : ہم سب کرپٹ ہیں

 

ضیا محی الدین صاحب کے بارے میں کہاں سےشروع کروں سمجھ نہیں آتا۔ ادب گویا سمٹ کر ایک شخصیت میں آگئی ہو وہ ضیا محی الدین تھے۔ ضیا محی الدین کو پڑھت کی رونق کہوں یا پھر کمال صداکار کہوں ؟ ضیا محی الدین کو تھیٹر آرٹسٹ کہوں یا پھر ہدایت کار کہوں؟انھوں نے جو کام کیا وہ کمال کیا اور لگتا تھا گویا اس کام میں ان سے زیادہ مہارت کسی کو حاصل نہیں۔

 

جب وہ مشہور فن پارے اپنے مختلف انداز بیاں میں پڑھتے تو سماعتیں جھومتے لگتی ،ان کے لہجے میں نشہ تھا جو سننے والے محسوس کرتے اور خواہش یہ ہوتی کہ بس یہ آواز جاری رہے اور خمار طاری رہیں ۔

 

End of an era': Politicians, celebs mourn death of literary luminary Zia Mohyeddin - Pakistan - SAMAA

 

وہ کربلا کا مرثیہ پڑھتے تو خود باخود رخسار پر رواں ہوجاتے وہ تاریخ دمشق کی سناتے تو تصور میں منظر کا الہام ہونے لگتا۔پڑھت کے معاملے میں پاکستان ہی کیا دنیائے اردو میں ان جیسا کوئی نہیں تھا۔

 

صدا کاری ایک مشکل اور حساس فن ہے اس میں جو کچھ ہے وہ آواز ہے یا پھر لہجہ ۔میں خود کچھ عرصے تک ریڈیو کا حصہ رہا ہوں ، مجھے تھوڑا بہت اندازہ ہے کہ صدا کاری کتنا مشکل کام ہے اور صرف پڑھت کے زریعے سننے والے سامعین کومسلسل قابو میں رکھنا آسان نہیں ہوتا ،یہ کام جس بلندی پر ضیا صاحب نے کیا شاید ہی کوئی دوسرا صدا کار کرسکتا ہو۔اس فن میں ضیا محی الدین استادوں کے استاد تھے۔

 

اس بارے میں پڑھیں : اخلاق سے عاری قوم

 

کچھ دہائیو ں قبل پاکستا ن میں ادب کے ایسے ایسے نایاب چہرے تھے ، فخر ہوتا تھا اور محسوس ہوتا تھا کہ مستقبل بھی تابناک ہوگا۔ ایک سے بڑھ کر ایک شاہکار ادیب ۔ ایسےادیب جو خالص ادیب تھے نہ کہ پرچی ادیب۔ لیکن ایک کے بعد ایک چراغ بجھتے گئے۔اوراب چند ہی حیات تھے اور اب وہ بھی منہ موڑتے جارہے ہیں۔ مجھے پاکستان کے مستقبل سے بڑا خوف آتا ہے کیونکہ جس طرح ہمارا معاشرہ انتہا پسندی کے نتائج بھگت رہا ہے اس کا موثر علاج ادب ہے اور اگر ادب کی یہ چند روشنیاں اسی طرح بجھتی گئی تو انتہاپسندی کا اندھیرا مزید پھیل جائےگا۔

 

نوٹ: جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

 

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top