جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

یہاں ہر کوئی بدمعاش ہے ! آپ بھی اور میں بھی

24 جنوری, 2023 14:30

کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ بد معاش ہیں؟ کیاآپ کو معلوم ہے کہ میں بھی بد معاش ہوں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہم سب بد معاش ہیں؟ جی ایسا ہی ہے ہم سب  کسی نہ کسی مقام پر پہنچ کر بدمعاشی کے عہدے پر فائز ہوجاتے ہیں۔ جی یہاں ہر کوئی بدمعاش ہے۔!

 

ہم سب اپنے ماتحت کے لئے بد معاش ہوتے ہیں، ہم ان لوگوں کے لئے بد معاش ہیں جن پر ہمارا زور چلتا ہے۔ ہم اپنے سے کمزور لوگوں کے لئے بد معاش بن جاتے ہیں۔ ہم پر وہ بد معاشی کرتے ہیں جو ہم سے زیادہ طاقتور ہیں اور ہم ان پر بد معاشی کرتے ہیں جو ہم سے کمزور ہوتے ہیں۔

 

یہ پڑھیں : چاچا بشیر اور میرا مکالمہ

 

بد معاشی کیا ہے ؟ زور زبردستی،بزور طاقت کوئی کام کروانا، مظلوم پر ظلم کرنا، کسی کا حق کھانا، دو نمبری ، زمین پر قبضہ، تجاوزات قائم کرنا ، غیر قانونی کام کرنا یہ سب بد معاشی کے زمرے میں آتا ہے ۔

 

البتہ کچھ لوگ حق مانگنے کے لئے احتجاج کرنے والوں کو بھی بد معاشی کے زمرے میں لےآتے ہیں جو کے بالکل غلط سوچ ہے۔ بد معاشی ہمارے نظام میں بھی ہے اور ہماری شخصیت میں بھی۔ یہ ہماری زندگی کا لازمی جزو ہے بلکہ ہماری شخصیت کابھی، مگر ہم اس سےناواقف ہیں۔

 

بدمعاش ہے

 

ہم سب اپنی اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق بد معاش بنے پھر تے ہیں اور اپنے سے کمزور لوگوں پر دھونس جماتے ہیں ۔ البتہ جہاں کوئی ہم سے بڑا ٹکڑا جائے ہم فوری بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔

بد معاشی کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی موقع پر جاری رہتا ہے۔ کبھی ہماری یہ بدمعاشی ہمارے گھروں پر کام کرنے والے ملازمین پر ہوتی ہے اور کبھی یہ آفس میں کام کرنے والے جونئیر ملازمین کے لئے ۔البتہ بد معاشی کا یہ ہی سلسلہ ہم سے بڑے افسر ہم پر جاری رکھتے ہیں ۔

آپ خیال کرتے ہونگے کہ یہ تو نظام ہے اس میں بد معاشی کیسی؟ آپ بھی صحیح خیال کرتے ہیں لیکن اگر ملازمین کو ان کےدائرہ اختیارکے مطابق ہی کام دے رہے ہیں تو بالکل یہ نظام ہے مگر اس سے ہٹ کر کوئی کام تفویض کرنا توسراسر زیادتی ہے کیونکہ آپ طاقت کا یا کرسی کا فائدہ اٹھارہے ہیں تو یہ بد معاشی ہے۔

 

اس بارے میں جانئے : مشہور ہونا آسان ہے  اور باصلاحیت ہونا مشکل ہے

 

یہ حقیقت ہے کہ جس کی جتنی حیثیت و استطاعت وہ اتنا بڑا بدمعاش بنا پھرتا ہے۔ جیسے کہ :

مولوی مذہبی بدمعاشی کرکے زمین پر قبضہ کرتا ہے اور مسجد بناتا ہے اور پھر وہاں سےاپنا معاملات چلاتا ہے۔ اب اگر کوئی مسجد کے خلاف بولے تو وہ دین کا دشمن ٹھہرایا جاتا ہے۔

اسی طرح لینڈ گریبر کی بدمعاشی یہ ہے کہ وہ زمین پر قبضہ کرکے پلازہ بناتا ہے اور بڑے بڑے افسران کو رشوت کھلاتا ہے اور پھر اپنا کاروبار چمکاتا ہے۔

دکانداروں کی بد معاشی کی حد یہ ہے کہ وہ آگے سڑک تک تجاوزات قائم کرلیتا ہے یا پھر اپنی مرضی سے اشیاء کی قیمتیں بڑھادیتا ہے۔

بائیک سواروں کی بدمعاشی کی حد یہ ہے کہ قانون توڑ تے ہیں ، اشاروں کی پرواہ کئے بغیر سگنل توڑتے ہیں اور رانگ آتے ہیں ۔

پھل اور سبزی فروشوں کی بد معاشی کی حد یہ ہے کہ وہ سبزیوں اور پھلوں پر رنگ کرتےہیں اور اسے کئی گنا زیادہ قیمت پر بیچتے ہیں یا پھر اپنی مرضی سے آدھی سڑک پرٹھیلا کھڑا کرکے اپنا سامان بیچتے ہیں۔

سیاست دان تو ہر اُس جگہ بدمعاشی کرتے ہیں جہاں ان کا زور چلتا ہے البتہ ایک جگہ یہ بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔

اسی طرح میڈیا ورکر کی بدمعاشی کارڈ میں چپھی ہوتی ہے اور وہ اپنے میڈیا کارڈ سے کافی جگہوں پر بد معاشی کرتے نظر آتے ہیں۔

بیوروکریسی کی بدمعاشی کا سلسلہ تو پاکستان کے وسیع و عریض سلسلے میں پھیلا ہوا ہے اور پاکستانیوں کو اس کا ذاتی حیثیت میں تجربہ ہوگیا ہوگا۔

گویا بد معاشی کرنا جیسے ہماری ثقافت کا حصہ بن گیا ہو۔یہ بلاشبہ ہماری خوبصورت ثقافت کے خلاف ایک داغ ہے مگر یہ داغ لگ چکا ہے البتہ اگر اس کو مٹانا چاہتے ہیں تو علم و تربیت کا سلسلہ مضبوط کرنا ہوگا اور بچے کو بچپن ہی سے اس بد معاشی جیسے غلط فعل سے آگاہی دینا ہوگی۔

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

 

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top