جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں، ماضی سے سیکھ کر حکمت عملی بنا رہے ہیں : وزیر خارجہ

09 جولائی, 2021 14:09

اسلام آباد : شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنا رہے ہیں، ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا پہلا اجلاس چیئرپرسن سینیٹر شیریں رحمان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔

چیرمین قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف اور دیگر اراکین کمیٹی کو خوش آمدید کہا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں سینیٹر مشاہد حسین سید صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس کمیٹی کو بہترین انداز میں چلایا۔ میں چاہتا ہوں کہ محترمہ شریں رحمان انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کمیٹی کو چلائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل وزارت خارجہ میں تمام پارلیمانی رہنماؤں کو افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔ اسی اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اداروں کی جانب سے ممبران پارلیمان کو خطے کی صورتحال پر بریفنگ دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی رہنماؤں کی خواہش پر اداروں کی جانب سے پارلیمنٹ میں 8 گھنٹے کی مفصل بریفنگ دی گئی۔

لیکن اس نشست میں صرف افغانستان پر گفتگو ہو سکی۔ کوشش ہے کہ دوسری نشست عید الضحی سے قبل ہو سکے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ آج امریکہ کے اسپوکس پرسن کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ہمارا تعمیری شراکت دار ہیں۔ ان کے مطابق افغانستان میں ان کی اور پاکستان کی منزل ایک ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ 31 اگست تک افغانستان سے انخلاء مکمل ہو جائے گا لیکن پاکستان اور خطے کے ساتھ امن کیلئے ایک رشتہ استوار رہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آج پوری دنیا ہمارے مؤقف کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ یہی بات عرصہ دراز سے وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں۔ انخلاء کے فیصلے پر ان کا بائی پارٹیزن اتفاق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری سوچ تھی کہ انخلاء ذمہ دارانہ ہو تاکہ کوئی منفی قوت خلا سے فائدہ نہ اٹھائے۔ ہم چاہتے تھے کہ انخلاء اور افغان امن عمل کو ساتھ ساتھ جاری رہنا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔

سرکاری افسران کی کارکردگی عوامی شکایات کے حل کے ساتھ مشروط کرنے کا فیصلہ

بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان مقاصد کو صدر بائیڈن نے بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق ان کا مقصد 9/11 کے ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچانا تھا جو مکمل ہوا۔

ان کا مقصد افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کو اتنا کمزور کرنا تھا کہ وہ آئندہ کسی اور کو نشانہ نہ بنا سکیں، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدف انہوں نے حاصل کر لیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم افغانستان میں نیشن بلڈنگ کیلئے نہیں گئے تھے، افغانستان کا مسئلہ افغانوں نے مل بیٹھ کر حل کرنا ہے اور ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں۔

ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ کہ انخلاء کے بعد بھی وہ انسانی بنیادوں پر معاونت جاری رکھیں گے۔ وہ ڈپلومیٹک موجودگی رکھنا چاہتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ کابل ایرپورٹ کی سیکورٹی کیلئے معاونت فراہم کرنے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں۔ انہوں نے زلمے خلیل زاد کو ہدایت کی ہے کہ وہ جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے سیاسی حل کیلئے روابط جاری رکھیں گے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میری آج سیکریٹری خارجہ بلنکن سے بات متوقع ہے۔ میں ان کے سامنے پاکستان کا نکتہ نظر رکھوں گا۔ امریکہ نے اپنے سابقہ حلیفوں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : 31 اگست کو افغانستان میں امریکا کا فوجی مشن ختم ہوجائے گا : جو بائیڈن

انہوں نے کہا کہ آج دوحہ معاہدے اور بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو سراہا جا رہا ہے۔ دوحہ معاہدے میں طالبان نے انخلاء کے دوران حملہ نہ کرنے کا وعدہ کیا اور انہوں نے اس معاہدے کی پاسداری کی، جسے امریکہ تسلیم کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے مطابق تین علاقے ایسے ہیں جہاں ٹیررازم پنپ سکتا ہے، جس میں مڈل ایسٹ، افریقہ اور جنوبی ایشیاء شامل ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کیلئے وہ حکمت عملی بنا تشکیل دے رہے ہیں۔ انہیں اپنی اسٹریٹیجک مسابقت چین سے دکھائی دے رہی ہے۔ اس سارے تناظر میں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے خارجہ کمیٹی کو بتایا کہ اگر افغانستان کی صورتحال خراب ہوتی ہے اور حالات 90 کی دہائی کی طرف جاتے ہیں تو ہمارے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔

مزید مہاجرین کے آنے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ہم بارڈر فینسنگ بھی کر رہے ہیں اور بارڈر کو محفوظ بنا رہے ہیں۔ ہم ایران ماڈل کو بھی زیر غور لا رہے ہیں۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ ہم مختلف نسلی گروپوں کے قائدین سے ملے ہیں ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے۔ ہم افغانستان میں امن کیلئے ذریعے سنٹرل ایشیاء تک اقتصادی روابط کا فروغ چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن کی ہر قابلِ عمل تجویز کو صدق دل سے قبول کریں گے۔ جلسوں میں آجکل بڑے بڑے قائدین منفی بیانات دے رہے ہیں، ہم جواب دے سکتے ہیں، لیکن ہم چاہیں گے کہ قومی سلامتی کے ایشوز پر بائ پارٹیزن اپروچ رکھی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں انخلاء کے بعد سول وار کی تشویش جائز ہے۔ ہماری کوشش ہے اور خواہش ہے کہ افغانستان اس صورت حال سے دو چار نہ ہو۔ پاور شئرنگ سول وار سے بچنے کا راستہ ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے بین الاقوامی کمیونٹی کو باور کروایا کہ آپ مہاجرین کو بھول چکے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کو افغان امن عمل کا حصہ بنایا جائے۔ ٹی ٹی پی کی مضبوطی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے ہم پاکستان میں طالبانائزیشن نہیں چاہتے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چین اگر افغانستان میں استحکام کیلئے قدم بڑھاتا ہے تو اچھی بات ہے۔ استنبول پراسس، میں طالبان نے آنے سے انکار کیا، لیکن ہم نے افغانستان اور ترکی کے ساتھ سہ فریقی اجلاس کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات مزید مستحکم ہوئے۔ تہران کے ساتھ ہمارا باڈر مارکیٹس کا معاہدہ ہوا۔ نئے ایرانی صدر کے ساتھ وزیراعظم کی اچھی گفتگو رہی۔ افغانستان کے حوالے سے ایران کا کردار اہم ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top