جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

پاکستانی چاند اور چاند دیکھنے والی کمیٹی

28 مارچ, 2023 13:00

‘پاکستان میں بہت سارے ایسے تنازعات ہیں جو ہر سال باقاعدگی کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔ لیکن ریاست کے عجیب و غریب معاملات ہے کہ ہر سال پیش آنے والا تنازعات کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ جیسا ہے چلنے دو کی چکر میںوہ معاملہ چلتا رہتا ہے۔ ان تنازعات میں ایک تنازعہ چاند کا بھی ہوتا ہے۔ رویت ہلال کا تنازعہ جو ہر سال دو موقع پر ضرور اٹھتا ہے جس میں عید فطر اور رمضان کا چاند شامل ہے۔

 

سرکاری سطح پر چاند دیکھنے والے گروہ کی کمیٹی رویت ہلال کمیٹی ہے جس میں درجن بھر مولوی شامل ہوتے ہیں جو ہر بڑے بڑے شہر میں موجود ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کو رہنمائی فراہم کرنے کے لئے سائنسی و ٹیکنیکل لوگ بھی ہوتے ہیں ۔

 

گویا سینکڑوں لوگ ہوتے ہیں ، جدید مشینیں ہوتیں ہیں ، مواصلات کا اعلی نظام ہوتا ہے لیکن پھر بھی رویت ہلال پر کوئی نہ کوئی تنازع پیدا ہوہی جاتا ہے ۔ کبھی کبھی رات 11 بجے عیدکے چاند کا اعلان ہوتا ہے اور کبھی رات 10 بجے رمضان کے چاند کا ۔ یہ تنازع ہر سال کا ہے اور باقاعدگی کے ساتھ ہے۔

 

یہ پڑھیں : رمضان میں اشیاء کی نہیں نیکیوں کی ذخیرہ اندوزی کیجئے !

 

گویا اتنے سارے لوگ اور مشینوں کے باوجود اگر کوئی حل نہ نہیں نکل رہا تو نظام میں تبدیلی لانی چاہیئے، کوئی ضروری تو نہیں کے مولوی چاند دیکھا گا تو ہی عید یا رمضان ہوگی۔

 

ان معاملات کے بعد بھی اگر تنازعہ ہونا ہے تو کم سے کم اس پورے معاملے میں ہونے والے سرکاری خرچے کوہی بچایا جائے اور یہ کام صرف ٹیکنالوجی ایکسپرٹ کی مدد سے انجام دیا جائے تاکہ کم سے کم تنازعہ ہو اور سرکاری وسائل بھی بچائے جاسکیں۔

 

چاند دیکھنے کے لئےیہ سرکاری کمیٹی ہے وہ صرف چاند دیکھتی ہے ، یہ معلوم نہیں چلا کے اس کے علاوہ وہ کیا کام کرتی ہے ۔ لیکن اس کمیٹی میں شامل مولویوں کی دعوت کا بھی خوب خیال رکھا جاتا ہے اور چاند دیکھنے کے بہانے یہ بھی خوب دعوت اُڑاتے ہیں ۔

 

 

ان میں سے اکثریت پورا سال ہمیں صبرو شکر کی تعلیمات دیتے ہیں اور خود ان چیزوں سے بری الذمہ نظر آتے ہیں ۔بڑے بڑے پیٹ رکھنے والے مولوی طرح طرح کے درس دیتے ہیں مگر بسیار خوری میں سب سے آگے نظر آتے ہیں ۔

 

ماہ رمضان خود احتسابی کے لئے بہترین مہینہ ہوتا ہے۔اس ماہ میں نہ صرف ماحول روحانی ہوتا ہے بلکہ اچھی اچھی باتیں بھی بہت ساری ہوتی ہیں اور شاید اسی ماہ میں سب سے زیادہ کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود عمل کا ہر جگہ فقدان نظر آتا ہے۔

 

اب اگر کوئی چور یہ بولے کے چوری نہ کرو تو اس کی بات میں وزن ہوگا ؟ نہیں ہوگا کیونکہ قول و فعل کا تضاد ہے جس کی وجہ سے مقدمہ کمزور پڑجاتا ہے اور باتیں بے روح معلوم ہوتی ہے۔

 

یہ پڑھیں : رمضان میں اب بہت کچھ بدل گیا ہے!

 

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ہر طبقے کے قول و فعل میں شدید تضاد نظر آتا ہے ۔ یہ ہی معاملہ کچھ مولویوں کے ساتھ بھی ہے۔ ان کی باتیں ایسی معلوم ہونگی کہ ان سے بڑا تقوی گزار اور پرہیزی شخص کوئی نہیں لیکن جب ان کے قریب جاتےہیں اور ان کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں قول فعل میں تضاد کی بھرپور نمائش جاری رہتی ہے۔

 

بہرحال چاند کے تنازع ہو یا کوئی سا بھی تنازعہ اس کو حل کرنے کے لئے ریاست کو کوشش کرنی چاہیئے اور بغیر کسی دباؤ میں آکر ایک لائحہ عمل بنانا ہوگا جو کے ریاست کا ہو تاکہ ابہام دور ہوسکیں۔

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

 

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top