جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

کیا پاکستان ٹی ٹی پی خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے؟

25 جنوری, 2024 15:26

پاکستان ایران کشیدگی پر تو سب کی نظر ہے مگر اس بحران کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے جڑے خطرات و خدشات پر بات نہیں ہو رہی ہے، لیکن آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایک فریق جس نے ایران پاکستان میزائل اور ڈرون کے تبادلے کو بہت قریب سے دیکھا وہ کابل میں طالبان کی حکومت تھی، وہ یہ جاننے میں کافی ہوشیار ہیں کہ یہاں تک کہ جب پاکستان ایران کے خلاف دوبدو کارروائی سے دوچار ہو چکا ہے، افغانستان میں ٹی ٹی پی ٹھکانوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا دبائو کم ہو چکا ہے۔

بزنس ریکارڈ میں شہاب جعفری افغان سرحد سے جڑے خوفناک مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ افغانستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی تعطل کا شکار ہے۔
اس سے پہلے پاکستان طویل عرصے سے تمام سفارتی آپریشنز ختم کر چکا تھا، متعدد انتباہی اقدامات اٹھا چکا تھا، حتیٰ کہ دائیں بازو کے وہ لوگ جو ہمیشہ طالبان کی حمایت کرتے تھے، اسلام آباد پر فیصلہ کن کارروائی کا اصرار کر رہے تھے۔

لیکن ایسے وقت میں ایران کا بلوچستان میں حملہ اور جواب میں سیاستان میں پاکستانی کارروائی، اگرچہ دونوں ممالک اپنے خدشات، انتباہات اور دھمکیوں کیلئے ایک دوسرے سے رابطے میں تھے، اچانک حملے کو پاکستان نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور پورا ملک اس موقف کیساتھ کھڑا تھا۔
اگرچہ ایران کے پاس صرف یہی آپشن نہ تھا بلکہ معاملے کو سفارتی سطح پر اٹھایا جا سکتا تھا،بہرحال یہ معاملہ بہتر طریقے سے طے پا گیا مگر اس صورتحال کا نتیجہ ایک ستم ظریفی کی صورت میں نکلا ، ایران سرحد سے جڑے خدشات طے پا گئے مگر افغان سرحد سے جڑے خطرات کے حوالے سے پاکستان کی حکمت عملی کمزور پر گئی۔

اب پاکستان کے لیے ڈیورنڈ لائن کے اس پار یکطرفہ ’’فیصلہ کن کارروائی‘‘ کرنا زیادہ مشکل ہے، کم از کم اس لیے کہ ایران کے تصادم کی دھول ابھی پوری طرح بیٹھی نہیں ہے۔ ٹی ٹی پی کے اچانک اپنی دوسری شورش روکنے کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔ طالبان کو ان کے وعدے دوبارہ یاد دلانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تو موجودہ صورتحال میں اسلام آباد کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

تحریک طالبان پاکستان صرف سرحد پار سے نہیں سرحد کے اندر بھی ایک خطرہ ہے، توایک تو فی الحال جمود کو برقرار رکھنا ہے، جس کا مطلب ہے کہ جب بھی حملے ہوتے ہیں ان کا کافی جواب دینا، حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی کی کارروائیوں میں بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار اور پولیو ورکرز پہلے ہی ہلاک کیے گئے ہی، بلکہ پاک ایران تنازعے نے شورش کو ایک بار پھر زور پکڑنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

ٹی ٹی پی اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتی ہے، اگرچہ ان کے پاس میزائل اور ڈرونز نہیں مگر پشتون بیلٹ میں اثر رکھتے ہیں، وہ کسی طرح بھی قومی سلامتی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے حکومت کو مشکوک عناصر کی کارروائیوں پر انٹیلیجنس بڑھانی پڑیگی تاکہ حملوں کے خدشات کو کم کیا جا سکے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان یکطرفہ کارروائی کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا مگر افغان سرحد پار اور اندرونی، دونوں خطرات کو پوری طرح پیش نظر رکھنا ہو گا۔

29 تاریخ کو جب ان کے وزیر خارجہ پاکستان آئیں گے تو شاید پاکستان ایران مذاکرات کا واحد مناسب آپشن سامنے آئے گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ بیجنگ نے تیزی سے پاک ایران کشیدگی ختم کرنے میں ایک بڑا کردار ادا کیا، دونوں ممالک میں اپنی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی حفاظت کے لیے قریبی تعلقات کو موثر انداز میں استعمال کیا ہے۔،پاکستان پہلے ہی سیاسی اور معاشی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے اور ایک بڑھتے ہوئی سیکورٹی خدشات بھی اس میں شامل ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ غزہ کی نسل کشی کے نتیجے میں ایرانی مداخلت نے اسے امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے محدود حملوں کا ممکنہ ہدف بنا دیا ہے۔ ایران کو دوسرے ممالک پر حملوں اور پراکسی وارز پر عالمی تنقید کا سامنا ہے۔
اس صورتحال میں ایران کا پاکستان پر حملہ چونکا دینے والا اور مضحکہ خیز تھا جو پورے خطے کو جنگ کی آگ میں جھونک سکتا تھا، مگر صورتحال کو سنبھال لیا گیا۔
دوسری طرف، اگر ایران دنیا سے مزید الگ تھلگ رہتا ہے، تو وہ بہت جلد بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملوں اور حزب اللہ کو اسرائیلی افواج پر حملوں کا ذمہ دار ٹھہرائے جائیگا، امریکی اور اسرائیلی مشترکہ فوجی کارروائی کا خطرہ اس سے زیادہ حقیقی کبھی نہیں تھا۔
اس صورتحال میں چین کے اربوں روپے کا منصوبہ سمندری سلک روٹ کے کواب بھی دھوئیں میں ڈوب جائینگے۔ چین ایسا کبھی نہیں چاہے گا جو روس کے ساتھ ملکر خطے کی معیشت کے ذریعے امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے۔

امن اور استحکام پاکستان کیلئے ناگزیر ہیں چونکہ آئی ایم ایف قرضہ، بدترین معاشی بحران، مہنگائی، بیروزگاری سے لڑنے کیلئے عالمی تعاون اشد ضروری ہے۔
مزید عدم استحکام، خاص طور دہشت گردی پاکستان کیلئے معاشی خطرات کا باعث بنے گی۔ پاک ایران تنازعے کے بعد موجودہ صورتحال میں پاکستان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کیلئے خطے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ رکھنا پڑیگا، پاکستان میں ہونیوالی بدامنی پورے خطے بالخصوص چین کے عالمی منصوبے کو خطرے میں ڈال دیگی۔

اس صورتحال میں اگر ٹی ٹی پی خود نہیں رکے گی، افغان طالبان حکومت اسے نہیں روکے گی تو پھر آخری آپشن فوجی کارروائی رہ جاتی ہے۔

یہ پڑھیں:ملک میں تعلیم کی صورتحال تشویشناک، پی آئی ای کی رپورٹ میں ہولناک انکشافات

 

 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top