جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

طاقتور کے لمبے اور قانون کے چھوٹے ہاتھ

07 مارچ, 2023 15:31

بالفرض کل کلاں کو ایک ملزم یا سزایافتہ مجرم ، ریاست کا مجرم کراچی ائیر پورٹ پر اتریں ، بلکہ لاہور ائیر پورٹ پر اتریں اور وہاں پر ریاست اسے گرفتار کرنے کو کھڑی ہو ۔

 

ایسے میں اس شخص کو پسند کرنے والے چا ر پانچ ہزار لوگ وہاں کھڑے ہوں اور پھر جیسے ہی پولیس والے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کریں وہ چار پانچ ہزار لوگ اس شخص کے گرد حصار بنا کر اس کو لاہور کے کسی پوش علاقے کے بنگلے میں لے جائے اور ایسے میں ریاست منہ تکتی رہ جائے تو اس پورے سلسلے کو کیا کہا جائے گا ؟

 

پھر اس بنگلے کے گرد ہمہ وقت ہزاروں انسان اس وجہ سے کھڑے ہو کہ ریاست جب بھی اس شخص کو گرفتا رکرنے آئے تو مزاحمت کی جائے اور ریاست اس بنیاد پر ایکشن نہ کریں کہ انسانی المیہ جنم لے سکتا ہو۔

 

پھر جب اس شخص یا ملزم کو عدالت طلب کریں تو وہ ہزاروں کے لشکر کے ساتھ عدالت پہنچیں اور بزور عوامی طاقت عدالت پر دباؤ بڑھایا جائے ، عدالت کے دروازے توڑے جائیں ، پولیس والوں کو مارا جائے ، کیمرے توڑے جائیں اور عدالت انتظار کریں کے ملزم پیش ہو تو بات آگے بڑھے۔ پھر اس ملزم کے حق میں فیصلہ ہو اور اسے ضمانت نصیب ہو۔ تو کیا اس ضمانت کو زبردستی کی یا بزور طاقت حاصل کی گئی ضمانت کہا جائےگا ؟

 

 

یہ پڑھیں : تصادم در تصادم اور ذلیل و خوار ہوتی عوام

 

اس پورے سلسلے میں ریاست کو کھلے عام چیلنج کیا گیا ، معزز اداروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی ، کیا یہ طریقہ کسی طورٹھیک ہے ؟ یہ تو بہت منفی پیغام ہے جو بہت سے طاقتور لوگوں کو مل رہا ہے کہ کل کلاں کو وہ بھی ایسے ہی ہزاروں لوگوں کےساتھ کسی بھی ادارے کو بلیک میل کریں ایسے میں ریاست کی عملداری کیسے برقرار رہے گی یہ تو کھلم کھلا توہین ریاست ہے جس کو طاقت سمجھا جارہا ہے۔

 

بطور پاکستانی سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ غلط ہر حال میں غلط ہوگا چاہے اسے کڑوڑوں لوگوں کی حمایت حاصل ہو ، سارے پاکستانی مل کر اگر جھوٹ بولیں تو کیا وہ سچ ہوجائے گا ہرگز نہیں ۔ کیا کوئی مولوی جھوٹ بولے گا تو کیا وہ ایمان کا حصہ بن جائے گا بالکل نہیں ، کیا کوئی سیاست دان اگر جھوٹ بوے گا تو وہ معتبر ہوجائے گا بالکل بھی نہیں ۔

 

قانون

 

پاکستانیوں کے بہت سارے مسئلوں میں سے ایک مسئلہ اندھی تقلید ہے جو وہ اپنے مولوی کی کرتے ہیں یا پھر سیاسی رہنما کی اور ان کی کہی ہوئی ہر بات پر ایمان لے آتے ہیں اور کسی اقوال زریں کی طرح جگہ جگہ پھیلاتے پھرتے ہیں ۔

 

یہ ہی کچھ گزشتہ چند دنوں سے جاری ہے ۔سیاسی رہنما کو پسندکر نا کوئی بُری بات نہیں البتہ ان کی ہر اقدام کو حق جاننا اور دوسروںکو بھی بزور غلط زبان و طاقت اس کا اقرار کروانا کونسی دانش ہے۔ آپ جس کو پسند کرتے ہیں  اسے آپ اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔

 

جو آپ کی زندگی پر اثر ڈالے گا اس سے سوال کرنا یا اس کے کاموں پر سوال درازی کیسے غلط ہوسکتی ہے ؟ صرف تشدد کے ذریعے اپنی بات منوانا حق کی فتح نہیں کہلاتی بلکہ یہ فسطائیت کا سب سے بھیانک چہرہ ہے۔

 

یہ پڑھیں : حاتم طائی کی قبر پر لات اور اسحاق ڈار

 

ارے پاکستانیوں، غریب پاکستانیوں ، سفید پوش پاکستانیوں اپنے حال پر رحم کھاؤ ، اپنے حال کو دوسروں کے سیاسی مقاصد پر قربان نہ کرو، یہ جذباتیت مستقبل میں بہت ستائیں گی ۔

 

ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہاں ہر چیز دو نمبر ہے، اپنی جوانیاں اپنے خاندان ، بیوی بچوں ، والدین کے لئے رکھو ۔ یاد رکھو تم دو بڑے گروہ کی لڑائی میں صرف پیادے ہو جو کبھی بھی نشانہ بن جائے گا اور کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔ سنبھل جاؤ اور اپنے مستقبل پر دھیان دو، بس یہ راستہ ہے باقی سب دھواں ہے۔

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top