جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار : جانئے بل میں چھپے ٹیکسوں کے بارے میں !

26 اگست, 2023 15:45

پاکستان میں گزشتہ کئی مہینوں سے کسی چیز میں تیزی سے ترقی ہورہی ہے تو وہ ہے بجلی کے بل کی رقم ۔گویا گزرے زمانے کے اردو دان نے ماضی میں ہی پاکستان کی اس ترقی کو دیکھتے ہوئے ہی یہ محاورہ کہا ہو گاکہ ” بل بلا اٹھنا” ۔

پاکستان کے کم و بیش ہر شہر میں بجلی کے بل کی وجہ سے پاکستانیوں کو اتنے شدید جھٹکے لگ رہے ہیں کہ وہ بل دیکھ کر بل بلا اٹھیں ہیں اور سڑکوں پر بل اٹھا کر احتجاج کرنے میں مصروف ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ دو سالوں میں مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا اور ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں نے عوام کی ٹوٹی کمر کو اور کرنٹ لگادیا۔
عوام کہتی ہے کہ بل بجلی کے یونٹ کے مطابق اگر 18 ہزارہوتو ٹیکس کی برکات سے یہ 34 ہزار تک عروج پاجاتا ہے۔

 

عوام کہتی ہے ایک نہیں،دو نہیں ،تین نہیں دسیوں قسم کے ٹیکس لگا نا عوام کے اوپر سراسر ظلم ہے، ہر جگہ ٹیکس کی بھرمار ہے ۔ اتنا بل آئے گا تو راشن کہاں سے آئے گا َ؟

بجلی کے بل میں چھپے ٹیکس سے ہر کوئی حیران اور پریشان نظر آتا ہے،گزشتہ یعنی پی ڈی ایم کی حکومت کے دور میں بجلی کی قیمت میں اوسطا سو گنا تک اضافہ ہونے کے بعد نگراں حکومت نے بھی فی یونٹ قیمت کو مزید بڑھادیا ہے ،

بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے مطابق بجلی کی قیمت تو ایک جانب ، بل میں موجود ٹیکسوں کی بھرمار نے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔

یہ کرنٹ لگاتے بل ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے ہے یا پھر کچھ اور ؟ ماجرا آخر ہےکیا؟ بجلی کے بل میں کون کون سی مد میں اور کیوں پیسے وصول کیے جا رہے ہیں؟

 

اس بارے میں جانئے : عوام کو کچھ سمجھ نہیں آتا سوائے مہنگائی کے

 

 

سب سے پہلے تو یہ بات واضح رہے کہ بجلی کے بل میں فی یونٹ کی قیمت استعمال کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے،یعنی جیسے جیسے استعمال شدہ یونٹ بڑھتے جائیں گے، ویسے ہی یونٹ کی قیمت اس کے حساب سے بھی بڑھتی رہتی ہے۔

 

دوسری ضروری بات یہ ہے کہ بجلی کے بل میں ایک حصہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کو واجب الادا رقم ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف براہ راست حکومتی محصولات ہوتے ہیں جو بجلی کے بل کے ذریعے صارف سے وصول کیے جاتے ہیں۔

بجلی کی قیمت کے علاوہ بل میں ایک اہم چیز فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے جو بجلی پیدا کرنے کے ذرائع یعنی ایندھن جیسا کہ کوئلہ، فرنس آئل یا گیس کی لاگت پر منحصر ہوتی ہے جس کا تخمینہ ہر ماہ لگایا جاتا ہے اور پھر صارف سے وصول کر لیا جاتا ہے۔

اس معاملے میں روپے کی قدر بھی خاص اہمیت کی حامل ہے۔

دوسری جانب ’فنانسنگ کاسٹ سرچارج‘ بھی وصول کیے جاتے ہیں جو دراصل گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے لگایا گیا ہے، اسی طرح کے الیکٹرک کی جانب سے جارہ کردہ بلوں میں یہ رقم ’پی ایچ ایل ہولڈنگ‘ کے نام پر لی جاتی ہے۔

اسی طرح سہ ماہی یا ’کوارٹرلی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ‘ یا ’ڈی ایم سی‘ کی مد میں بھی صارفین سے اس وقت پیسے وصول کیے جاتے ہیں جب حکومت بجلی کی قیمت میں رد و بدل کرتی ہے۔

 

اس بارے میں جانئے : مشہور ہونا آسان ہے  اور باصلاحیت ہونا مشکل ہے

 

 

دوسری جانب چند اخراجات یا ٹیکس ایسے ہیں جو براہ راست حکومت کی جانب سے عائد کیے جاتے ہیں اور ان کا بجلی فراہم کرنے والی کمپنی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ اگر آپ ٹیکس فائلر نہیں ہیں، تو بجلی کے بل میں انکم ٹیکس بھی لگ کر آئے گا،انکم ٹیکس کی بجلی کے بلوں کی ذریعے وصولی بھی ایک متنازع عمل ہے ۔

اسی طرح حکومت دو اور مدوں میں بھی صارف سے براہ راست پیسے وصول کرتی ہے جن میں سے ایک تو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے اوپر لگایا جانے والا جی ایس ٹی ہے اور دوسرا ٹی وی فیس ہے۔

 

واضح رہے بجلی فراہم کرنے والی مختلف کمپینوں کے ٹیکسوں میں فرق بھی ہوسکتا ہے ، کوئی کمپنی کسی نام سے ٹیکس لیتی ہے اور کوئی کسی اور مد میں، لیکن کم و بیش بجلی فراہم کرنے والے سب اداروں میں ٹیکسوں کی بھرمار ہے جس سے عام عوام عاجز و پریشان ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top