جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

عدالتی اصلاحات بل کی سماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی، پارلیمنٹ کی کارروائی طلب

08 مئی, 2023 15:22

اسلام آباد : سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کی سماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ کا حصہ تھے۔

اٹارنی جنرل نے سماعت پر عدالت کو بتایا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ مسلم لیگ ن نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالت کو درخواست دے دی، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کی درخواست پر تو ابھی نمبر بھی نہیں لگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا۔ اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے۔ عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان کا کہنا تھا کہ عدلیہ آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے۔ قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے۔ عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے۔ قانون میں جو معاملات طے کیے گئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیئے تھے۔ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم بھی کل کورٹ ہی کرسکتی ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور رولز سے فیصلہ و مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہو گا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے، رولز میں ترمیم کا نہیں۔ قانون سازی کا اختیار مختلف بینچز معمول میں کرتے رہتے ہیں۔ کیا آپ کی منتق یہ ہے کہ رولز فل کورٹ نے بنائے تو تشریح بھی وہی کرے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائے گئے قانون میں دے دیا ہے۔ عدالتی اصلاحات بل کے مطابق پانچ رکنی بینچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنے گایا تو آپ کہے کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : سپریم کورٹ : ملک میں ایک ساتھ انتخابات کیس کی سماعت مکمل

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے قانون پر عمل درآمد سے روک رکھا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر حکم امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کہا جاتی؟ پارلیمنت کہتی ہے پانچ رکنی بینچ ہو اٹارنی جنرل کہتے ہے فل کورٹ ہو۔ لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزور پڑھ گئی ہے کہ یہاں کتنے ججز بیٹھے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کی استدعا مناسب لگنے پر کی جاسکتی ہے۔ قانون میں کم سے کم پانچ ججز کا لکھا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنت پانچ ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل کیوں نہیں؟

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے۔ ہائیکورٹ بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنتی ہیں۔ کیا ہائیکورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی ہے؟ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں ہے۔ 2012 میں بھی اس نوعیت کا مقدمہ سنا جاچکا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ میں 60 اور سندھ ہائیکورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گے؟ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ فل کورٹ کی درخواست میں لکھا ہے کہ بینچ حکم امتناع میں اپنا ذہن دے چکا ہے۔

ن لیگ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ حکم امتناع کے ذریعے پہلی مرتبہ قانون پر عملدرآمد روکا گیا ہے۔ فل کورٹ کے لیے بینچ درخواستیں معمول میں دی جاتی ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں بھی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا گیا تھا۔ چیف جسٹس خود جسٹس فائز عیسیٰ کیس نہیں سن رہے تھے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ سات رکنی بینچ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔ بعض اوقات بینچ خود بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے فائل چیف جسٹس کو بھجواتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ افتخار چوہدری اور جسٹس فائز عیسیٰ کیسز صدارتی ریفرنس پر تھے۔ ججز پر الزام لگے تو ٹرائل سپریم کورٹ کا ہوتا ہے۔ معاملہ سنگین نوعیت کا ہونے پر ہی فل کورٹ بنا تھا۔ دونوں ججز کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیئے۔ کسی اور مقدمے میں فل کورٹ کی مثال ہے تو دیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ آئی جی جیل خانہ جات کیس میں بھی فل کورٹ تشکیل دی گئی تھی۔ منیب اختر نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں جج کو معزول کردیا گیا تھا۔ وہ ماسٹر آف روسٹر کا اختیار استعمال نئیں کرسکتے تھے۔ معزولی کے بعد قائم مقام چیف جسٹس اس اختیار کو استعمال کررہے تھے۔ مسلم لیگ ن پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت ہے۔

وکیل صلاح الدین کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے رولز چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو اسٹریکچر نہیں کرتے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے اس میں پانچ رکنی بینچ کی بات کی گی ہے۔ مسلم لیگ ن فل کورٹ کی استدعا کیسے کرسکتی ہے۔

لیگی وکیل نے کہا کہ چیف جسٹس بینچز کی تشکیل کا حکم دیتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات آتے ہیں۔ سائلین کے اعتراضات پر عدالت فیصلہ کرتی ہے۔ صلاح الدین کا کہنا تھا کہ جانبداری پر مبنی کئی فیصلے موجود ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سائلین عدالت میں پیش ہو کر اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کی سماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو پارلیمنٹ کی پروسیسنگ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top