جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

ایک ہی دن انتخابات کیس : سپریم کورٹ کا چار بجے تک فریقین کو مشاورت کرنے کا حکم

20 اپریل, 2023 13:54

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ایک ہی دن انتخابات کرانے سے متعلق کیس میں 4 بجے تک تمام فریقین کو بیٹھ کر مشاورت کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک دن الیکشن کرانے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی بینچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے موقع پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے دعا سے آغاز کیا کہ مولا کریم لمبی حکمت دے تا کہ صحیح فیصلے کر سکیں۔ ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر اور ہمارے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے۔ عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی۔

پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی عدالت میں پیش ہوئے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا آپ عدالت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں؟

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتے ہیں۔ ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے۔ ہمیشہ راستہ نکالنے اور آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی۔ قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے۔ دیکھتے ہیں کی حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے۔ ہمارے جماعت آئین کے تحفظ پر آپ کے ساتھ ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ اکثر سیاسی جماعتوں کے رہنما کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ان کو ایک ایک کرکے سنا جائے۔ میری استدعا ہے کہ ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہونے چاہیئے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ صف اول کی سیاسی قیادت عدالت میں موجود ہے۔ یہ قیادت جانتی ہے اور مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے۔ عدالتی احکامات کے ذریعے اگر حل نکالنا چاہیں تو اس میں پیچیدگیاں نکلتی ہیں، لیکن جب سیاسی جماعتیں کوئی کام کرتی ہیں تو راستے نکلتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قوم میں اضطراب ہے، قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا۔ عدالت حکم دے گے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں۔ سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہو گی۔

فاروق ایچ ناٸیک نے کہا کہ عدالت دو مرتبہ 90 دن سے تاریخ آگے بڑھا چکی ہے۔ سیاسی جماعتیں پہلے ہی ایک ساتھ انتخابات پر کام شروع کر چکی ہیں۔ بلاول بھٹو نے اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی۔ عید کے فوری بعد سیاسی ڈاٸیلاگ حکومتی اتحاد کے اندر مکمل کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آٸی سے پھر مذاکرات کرینگے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ان ڈاٸیلاگ سے سیاسی اتفاق راے پیدا ہو۔ الیکشن جتنی جلدی مکمن ہو، ایک ہی دن ہونے چاہیے۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اپنی قیادت سے مشورے کے بعد حاضر ہوئے ہیں۔ ماحول مشکل ہے لیکن 22 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔ الیکشن ہورے ملک میں ایک ساتھ ہونے چاہییں۔ انتخابات پر مذاکرات کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہان کا اجلاس عید کے بعد طلب کر لیا ہے۔ ریاستی اداروں کا وقت ضائع کرنے کی بجائے سیاست دانوں کو خود بات کرنا چاہیے۔ عدالت میں بھی اپوزیشن کے ساتھ بغلگیر ہوئے ہیں۔ میڈیا پر ہونے والے جھگڑے اتنے سنگین نہیں ہوتے جتنے لگتے ہیں۔

ایاز صادق بی این پی کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ بی این پی والے چاغی میں تھے، اس لیے مجھے پیش ہونے کا کہا گیا۔ پی ٹی آئی سے ذاتی حیثیت میں رابطہ رہتا ہے آئندہ بھی رہے گا۔

مسلم لیگ ق کے رہنماء طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ مجھے چوہدری شجاعت نے پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ ملک میں ایک دن میں الیکشن ہونا چاہیئے، یہ بہت سے اختلافات کو ختم کردیگا۔ یقین دلاتا ہوں کہ ایک دن الیکشن کرانے کی سپورٹ کرتے ہیں۔ آپ فیصلہ کرینگے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے، لیکن اگر ہم کرینگے تو سب کے لئے بہتر ہوگا۔

ایم کیو ایم رہنماء صابر قائم خانی نے کہا کہ مسائل کا حل بات چیت سے نکالا جائے۔ ملک میں انتخابات ایک دن میں ہو تو بہتر ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیئے۔

شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرچکا ہوں۔ ایک سیاسی پہلو ہے دوسرا قانونی۔ آئین 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے حوالے سے واضح ہے۔ کسی کی خواہش کا نہیں آئین کا تابع ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا۔ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا۔ تلخی کی بجائے اگے بڑھنے کیلئے آئے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنماء نے کہا کہ سیاسی قوتوں نے مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے۔ آئینی اور جمہوری راستہ انتخابات ہی ہیں۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے چاہئیں۔ ن لیگی قیادت نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ ہمیں کہا گیا قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا۔ حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے۔ ن لیگ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد فیصلے سے مکر گئی۔

یہ بھی پڑھیں : عدلیہ آئین کی تشریح کرسکتی ہے، دوبارہ نہیں لکھ سکتی : وزیر اعظم

چیف جسٹس نے کہا کہ آج 29 واں رمضان ہے۔ ہمارے سامنے ایک بریفنگ دی تھی۔ درخواست گزاربھی ایک ہی دن میں الیکشن چاہتے ہیں۔ ایک ہی دن کی بات اٹارنی جنرل نے کی تھی، لیکن وہ ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکی۔

چیف  جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کے سربراہ نے بیان دیا وہ اس عمل کی حمایت کرتے ہیں۔ وزارت دفاع نے بھی بہت اچھی بریفنگ دی۔ فاروق ایچ نائیک نے بھی کہا تھا کہ ایک ساتھ انتحابات ہوں۔ آصف زرداری کے مشکور ہیں انھوں نے ہماری تجویزسے اتفاق کیا۔ ن لیگ نے بھی تجویز سے متعلق بات کی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ نے 17 اپریل تک وسائل فراہم کرنے کا حکم دیا، لیکن کیا اس پر حکم عمل ہوا؟ آئین کے مطابق یہ اپنا ایک پروپوزل دیں، ہم اس کو دیکھیں گے۔ کیا ملک کو پارلیمانی قررادادوں سے چلانا چاہتے ہیں۔ ہم نہ انتشار چاہتے ہیں نہ آئین سے انحراف۔ مذاکرات کے حامی ہیں جو آئین کے اندر رہتے ہوئے ہوں۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو۔ اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہوجائے تو اللہ پر اعتماد کرو۔ مذاکرات کرنا آپشن نہیں اللہ کا حکم ہے۔ آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے۔ دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہو گیا۔ 1977 میں سعودی سفیر اور امریکی سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی تھی۔ مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لاء لگ گیا۔

انہوں نے کہا کہ 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پی پی پی کی لڑائی سے مارشل لاء لگا۔ آج ہمیں اسی منظر نامے کا سامنا ہے۔ امریکہ ایران اور سعودی عرب اب پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے۔ 1970 اور 71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے۔ سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے۔ بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی۔ حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے۔ یقین ہے کہ کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی۔ دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔ گزارش ہو گی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں۔ جولائی میں بڑی عید ہو گی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں۔ عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔

سپریم کورٹ نے ایک ہی دن انتخابات کرانے سے متعلق کیس میں 4 بجے تک تمام فریقین کو بیٹھ کر مشاورت کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا کہ مذاکرات میں ہونیوالی پیشرفت سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top