جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

از خود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے، صرف چیف جسٹس کا نہیں : جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

19 اپریل, 2023 15:29

اسلام آباد : جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ میری رائے میں از خود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے، آئین کی شق 184 تین سپریم کورٹ کو اختیار دیتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین پاکستان قومی وحدت کی علامت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان کی 50ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ 10 اپریل 1973 کو مشترکہ طور پر اسے اپنایا گیا اور قوم کو پیش کیا۔ یہ کتاب صرف پارلیمان نہیں لوگوں کیلئے بھی اہم ہے۔ اس کتاب میں لوگوں کے حقوق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک جدوجہد کے بعد پاکستان 1947 میں قائم ہوا۔ دنیا کے نقشے پر پہلی مسلم ریاست وجود میں آئی۔ آئین سیاستدانوں، چند افراد، پارلیمان اور عدلیہ کیلئے نہیں، عوام کیلئے ہے۔ جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو زیادہ دیر نہیں ٹھہرتی۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا پاکستان اچانک ٹوٹا؟ جسٹس منیر نے اس کے بیچ بوئے تھے۔ 1971 میں نفرت کے زہریلے بیج نے پاکستان کو توڑا۔ جو کام ہم آج کرتے ہیں، اس کے اثرات صدیوں بعد بھی ہوتے ہیں۔ انتخابات میں الزامات لگتے ہیں کہ صاف و شفاف نہیں ہوئے۔ پاکستان پر آمر مسلط رہے مگر ان سے ملک سنبھالا نہیں گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔

سپریم کورٹ کے سینیئر جج نے کہا کہ 4 جولائی 1977 کو ایک شخص آکر پوری قوم پر مسلط ہوگیا۔ اس شخص نے 11 سال 1988 تک حکومت کی۔ ایک جہاز کے حادثے میں اس شخص کا انتقال ہوگیا۔ 2 مارچ 1985 کو آئین کی بحالی کا حکم آتا ہے، اس وقت پارلیمان غیر سیاسی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آئین کی بحالی کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا جاتا رہا۔ کہا گیا مارشل لا تب ہٹاؤں گا، جب تم 8ویں ترمیم منظور کروگے۔ جبراً8ویں ترمیم منظور کرائی گئی، پھر مارشل لا ختم ہوا۔ انہوں نے اپنے تحفظ کے لیے آئین میں شق آرٹیکل 52 اے ڈالی۔ پھر اس شق کا استعمال بھی کیا، انہی کے منتخب محمد خان جونیجو انہیں پسند نہیں آئے۔

یہ بھی پڑھیں : سپریم کورٹ کا 2021 تک آڈٹ مکمل ہے : ترجمان کی وضاحت

انہوں نے کہا کہ اگلے الیکشن نومبر 1988 میں ہوئے، جو سیاسی اور پارٹی بیس الیکشن تھے۔ ان الیکشن میں بینظیر بھٹو نے اکثریت حاصل کی اور وزیراعظم بن گئیں۔ یہاں پر ایک اور نفرت کا بیج بویا گیا، جو اٹھاون ٹو بی کی شکل میں آیا۔ غلام اسحاق خان نے بھی اٹھاون ٹو بی کا استعمال دو بار کیا۔ ایک بار بینظیر بھٹو دوسری بار نواز شریف کی حکومت میں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ایک ڈکٹیٹر آتا ہے، جو خود کو جمہوریت پسند سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ اصل میں ڈکٹیٹر خود کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے، پھر وہ ریفرنڈم کراتا ہے۔ 12 اکتوبر 1999 میں ایک سرکاری ملازم نے سمجھا، مجھ سے بہتر کوئی نہیں۔ اس شخص نے ٹیک اوور کرلیا۔ اس شخص نے دو بار 12 اکتوبر 1999 اور 3 نومبر 2007 میں وار کیا۔

سپریم کورٹ کے سینیئر جج نے کہا کہ آئین ایسا تحفہ ہے جو دوبارہ کبھی نہیں ملے گا۔ آئین پر بہت وار کیئے گئے، مگر آئین کا بہت حوصلہ ہے۔ 50 سال بعد بھی کھڑا ہے۔ مشرف نے آئین میں شق سے اپنے آپ کو تحفظ فراہم کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم 2010 میں آئی تو آئین کی شکل صورت بگاڑ دی گئی تھی۔ جب تک سب کو ساتھ لیکر نہیں چلیں گے تو شک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ جس پروسس کے تحت18ویں ترمیم بنانے گئے تو رائے نہیں لی گئی۔ رائے وہی ہوگی جو آئین اور 18ویں ترمیم میں لکھی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نفرتوں کی وجوہات ہوتی ہیں، چھوٹی بات پر گھر برباد ہوجاتے ہیں۔ چھوٹی بات پر پانی نہ ڈالیں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر آپ تاریخ سے نہیں سیکھتے تو تاریخ دہرائی جاتی ہے۔

سپریم کورٹ کے سینیئر جج نے کہا کہ نمبر گیم سے جھوٹ میں اور سچ جھوٹ میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ آج کوئی شاید ہی یہ کہے گا کہ جسٹس منیر کا فیصلہ درست تھا۔ آئین میں از خود نوٹس کا لفظ موجود نہیں ہے۔ میری رائے میں از خود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے، صرف چیف جسٹس کا نہیں۔ آئین کی شق 184 تین سپریم کورٹ کو اختیار دیتی ہے۔ معاملہ بنیادی حقوق کا نہ ہو تو یہ شق استعمال نہیں کی جاسکتی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آئین کی شق 184 تین کے تحت آئین نے اپیل کا حق نہیں دیا۔ جب یہ شق استعمال کی جائے تو پھونک پھونک کر قدم رکھنے چاہئیں۔ ازخود نوٹس کسی کو فائدہ دینے کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ شق184 تین کا پاکستان میں بھرپور استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ انگلستان جائیں تو وہ بھی سوموٹو کا لفظ نہیں سمجھ پائیں گے۔ ازخود نوٹس کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو ہے۔ 184 تین کے تحت سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بن جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب سے سپریم کورٹ کا جج بنا کبھی اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار نہیں کیا۔ کبھی کسی بینچ میں بیٹھنے یا نہ بیٹھنے کی سفارش نہیں کی۔ جس دن مجھ میں انا آ جائے گی تو میں جج نہیں رہوں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 41 سال ہونے کو ہیں میں آج بھی خود کو قانون کا طالبعلم سمجھتا ہوں۔ ملک کی موجودہ صورتحال میرے خیال میں پہلی بار ہے۔ عام انتخابات سے متعلق معاملے پر میں رائے نہیں دے سکتا۔ رائے دینے سے گھبراتا نہیں۔ مگر رائے دینے سے پہلے ہر ایک کو سننا پسند کرتا ہوں۔ عدالت کے فیصلے اور رائے میں فرق ہوتا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top