جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

لڑکوں پر پڑے بوجھ کو تھوڑا کم کیجئے 

10 اکتوبر, 2021 13:52

ہمارے معاشرے کو پدر شاہی معاشرہ یعنی مرَدوں کا معاشرہ کہا جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ ہمارے معاشرے میں مرَدوں کو اہمیت زیادہ دی جاتی ہے مگر خواتین بھی  خاص اہمیت و حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔

 

 

یقیناً  معاشرے میں کچھ ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جو انتہائی غیر مہذب ہوتے ہیں مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ معاشرے کی اصل پہچان  ہیں۔ ہر انسان  کے حقوق ہوتے ہیں چاہے وہ مرد ہو یا عورت ،حقوق میں بہت سی چیزیں آتی ہیں مگر شاید ہمارا ذہن اس جانب نہیں جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق کی تو بات ہوتی ہے

 

مگر مرَدوں کے حقوق کی بات کوئی نہیں کرتا اور اس بارے میں کوئی سوچتا بھی نہیں کہ ان کےبھی کچھ حقوق ہیں اور انھیں بھی دوسروں کی طرح اہمیت دینی چایئے نہ کہ ان کو بہت مضبوط کہہ کر جان چھڑانی چاہیئے۔

 

 

 

 

بھائی، باپ، بیٹا، شوہر جیسے رشتوں سے جڑا مرد خاندان میں شیلڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پورے پورے خاندان کو پالتے ہیں، ۔ یہ محنت کرتے ہیں، مشقت کرتے ہیں ، موسموں کو سختیاں جھیلتے ہیں، خون پسینہ بہاتے ہیں اور اپنے گھر والوں کو اچھالائف اسٹائل دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔،

باپ ہو تو اپنی بچوں کی خواہشات، شوہر تو اپنی بیوی کی خواہشات، بھائی ہو تو اپنے بہن کی خواہشات، بیٹا ہو تو اپنے والدین کی خواہش ، گویا اس کی زندگی رشتوں کو بنھانے اور سنبھالنے میں گزرتی رہتی ہے۔

 

اس معاشرے نے مردوں کو بہت مجبوربنادیا ہے اور وہ اس نظام کی وجہ سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نقصان بھی پہنچا ہے۔ ایک کے بعد ایک مجبوری نے مرد کو بہت دباؤ میں ڈال دیا ہے۔  شادی کی مثال لے لیجئے۔

 

ایک لڑکا اپنی شادی کے لئے خود بھی پیسے جمع کرتا ہے مگر مہنگائی اور شاہانہ شادی کی دو طرفہ خاندانی خواہش میں لڑکا پس کر  رہ جاتا ہے اور پھر وہ ہی لاکھوں روپے اُدھار کا چکر ، اور مہینوں و سالوں اس اُدھار کو چکانے کی لئے  ذہن میں دباؤ ساتھ ساتھ لے کر پھرنا۔

 

 

شادی کا مطلب دو لوگوں کا ایک ساتھ زندگی کا آغاز جس میں مل کر مشکلات کا سامنا کیا جائے۔ مگر یہ کیا؟ یہ کیسا انداز ہے جس میں آغاز سے ہی لڑکے پر بوجھ ہے۔

جو کئی سالوں تک اس پر سوار رہے گا اب اگرآغاز ہی بوجھ کے ساتھ ہوگا تو وہ رشتہ خوشی کے ساتھ کیسے نبھا سکتا ہے۔

 

 

 

لڑکوں پر بوجھ 

 

ایک طرف ہونے والے نئے شوہر پر بوجھ تو دوسری جانب بیٹی کے باپ اور بھائی پر بھی بوجھ ، وہ بھی قرضہ لیتے ہیں اور پھر سالوں تک بھرتے رہتے ہیں ۔

دونوں جانب سے بظاہر ہنسی خوشی نبھایا جارہا ہے مگر ایک دباؤ ہے جو شادی کے اگلے ہی دن سے شروع ہوجانا ہے۔یہ کیسی خوشی ہے جو ادھار پیسوں اور قرض  کی فکر کے ساتھ منائی جائے۔

 

اگر سادگی سے شادی کرنے کے لئے میاں بیوی راضی بھی ہو تو دونوں جانب کے اماں اباراضی نہیں ہوتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ بیٹے/بیٹی کی خوشی ہے ایسے کیسے ؟ مگر دوسری جانب وہ اپنے لڑکوں کے چہرے پر موجود  دباؤ دیکھنا بھول جاتے ہیں۔

وہ لڑکا جیسےتیسے کرکے لاکھوں روپے ادھار کرتا ہے اور پھر سالوں تک بھرتا ہے۔

 

اس دباؤ کی وجہ سے وہ اپنی ازدواجی زندگی میں بھی پریشانی کا سامنا کرتا ہےاور زندگی کے شروعات میں کہ جب گھومنے پھرنےکا ماحول ہوتا ہے تو اس وقت یہ پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔

 

 

اس بارے میں پڑھیں : اخلاق سے عاری قوم

 

یہ ایک رُخ ہے جو والدین اور اس معاشرے کا ہے۔ اگر رشتے کےآغاز میں ہی یہ بے چینی رہے گی تو یہ ظلم ہے ۔ پرُتعیش شادی برُی نہیں مگر اس صورت میں جب وسائل موجود ہوں اور اس کے لئے قرض نہ لینا ہو۔

 

کیونکہ ایک نوکری پیشہ شخص کے لئے  قرض اتارنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اور ویسے بھی آ جکل کے مہنگائی والے دور  میں بہت احتیاط اور پھونک پھونک کرچلنا ہوتا ہے۔

 

مشورہ یہ ہی ہے کہ اپنی چادر کے مطابق چلئے تاکہ زندگی پرُ سکون رہے۔شادی کے تین گھنٹوں پر لاکھوں خرچ کرکے تین سال تک پریشان رہنے سے بہتر ہے کہ سادگی

اپنائے  اور سکون پائیں۔

 

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

[simple-author-box]

 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top