جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

ایوان بالا یعنی سینیٹ کے بارے میں جانئے – جی ٹی وی اسپیشل

02 مارچ, 2021 13:24

سینیٹ پاکستان کی پارلیمان کا ایوان بالا ہے اور قومی اسمبلی ایوان زیریں ہے۔سینیٹ کو کچھ معاملات میں قومی اسمبلی پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ سینیٹ کے ایوان کو ایوان وفاق بھی کہا جاتا ہے۔ نیز اس ایوان کا وزیراعظم کے انتخاب اور اسے کرسی سے اتارنے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔

 

 

سینیٹ کی کل 104 نشستیں ہیں۔ جس کے رکن 6 سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ البتہ الیکشن ہر تین سال بعد ہوتے ہیں اور یوں آدھے ارکان ریٹائر ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے ارکان کا انتخاب ہوتا ہے۔

 

قومی اسمبلی کے ہوتے ہوئے سینیٹ کا ایوان بالا محض وفاق کے تمام چھوٹے بڑے یونٹس کو برابری کی نمائندگی دینے اور وفاق کی مضبوطی کے نقطۂ نظر سے آئین سازوں نے 1973 کے آئین کے تحت قائم کیا تھا۔

 

 

قومی اسمبلی کے برخلاف جہاں ہر صوبے کو اس کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی گئی ہے سینیٹ میں ہر صوبے کو مساوی نشستیں دی گئیں ہیں۔ سینیٹ اراکین کا انتخاب متعلقہ صوبائی اسمبلی کرتی ہے جبکہ اسلام آباد کی مخصوص نشستوں کے لیے ووٹنگ قومی اسمبلی کے ارکان کرتے ہیں۔

 

 

 

سینیٹ کے انتخابات میں عموماً سیاسی جماعتیں تین طرح کے امیدوار کھڑے کرتی ہیں۔ پہلی قسم پڑھے لکھے امیدواروں کی ہوتی ہے جو کہ تجربہ کار اور سینئر سیاست دانوں پر مشتمل ہوتی ہے جو قوانین و آئینی معاملات پر گرفت رکھتے ہوں اور سینیٹ کے معاملات چلانے اور قوانین سازی میں ماہر ہوں۔مثال کے طور پر اس قسم کے امیدواروں میں رضاربانی اور راجہ ظفر الحق جیسے تجربہ کارشمار کئے جاتے ہیں۔

 

 

امیدواروں میں دوسراقسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو پارٹی کے دیرینہ کارکن ہوتے ہیں یا پھر پارتی قیادت کے قریبی اور ذاتی جان پہنچان والے ہوتے ہیں۔ اس قسم کے امیدواروں میں پارٹی کے کرم فرماؤں کے بارے میں بھی سوچا جاتا ہے اور ان کو ٹکٹ سے نوازا جاتا ہے۔جیسے حفیظ شیخ ایک مثال ہیں۔

 

 

تیسری قسم کے لوگ مفاد پرست ٹولہ کی ہوتی ہے جوسیاسی جماعتوں کے لیے اس لحاظ سے اہم ہوتے ہیں کہ ان کی بدولت سیاسی جماعتوں کا خزانوں میں رونق رہتی ہے۔ اس طرح کہ سینیٹرز بنائے جانے کے عوض یہ سرمایہ دار افراد اپنی بھاری بھرکم دولت میں سے ایک حصہ اپنی پارٹیوں کو پارٹی فنڈ کے طور پر دیتے ہیں اور بعض اوقات افراد کو بھی۔

 

 

جن میں ایم پی اے اور ایم این ایز یعنی ان کے ووٹرز بھی شامل ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو پارٹی قیادت تک ہدیہ پہنچتا ہے۔اس طرح کے سرمایہ دار اور کاروباری لوگ سینیٹ میں پہنچ کر اپنے فائدے کی پالیسی سازی میں کام کرتے ہیں اور اپنے ہم خیالوں سے داد وتحسین اور بزنس کے نئے نئے سلسلے بناتے ہیں۔

 

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top