جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس: سماعت جنوری تک ملتوی، عدالت نے 9 معاونین مقرر کردیے

12 دسمبر, 2023 12:07

اسلام آباد: سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس پر 11 سال بعد ہونے والی سماعت جنوری 2024 تک ملتوی کردی گئی۔ سپریم کورٹ نے کیس میں 9 عدالتی معاونین مقرر کردیے۔

صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجربینچ نے کی۔

عدالتی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست دکھائی گئی۔

لارجربینچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس سردار طارق، جسٹس منصور، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس علی مظہر، جسٹس حسن اظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا۔

حکم نامے کے مطابق عدالتی معاونین کو نوٹس جاری کرکے جواب لیا جائے، عدالت نے آئینی اور فوجداری معاملات کے 9 ماہرین کو معاون مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کردیا گیا، آخری بار صدارتی ریفرنس 2012 میں سنا گیا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا۔

حکم نامے کے مطابق صدارتی ریفرنس کی کاررواٸی لاٸیو دکھاٸی گٸی جس سے لائیو سے منعلق بلاول بھٹو کی درخواست غیر مؤثر ہوگٸی، سپریم کورٹ بلاول بھٹو کی درخواست غیر مؤثر ہونے پر نمٹاتی ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کہ بتایا گیا کہ ذوالفقار بھٹو کی صرف ایک بیٹی زندہ ہیں، اُن کے 8 پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہیں، ورثاء کی جانب سے جو بھی وکیل کرنا چاہے کرسکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے قراردیا کہ عدالتی معاون تحریری یا زبانی طور پر معاونت کرسکتے ہیں، جسٹس (ر) منظور ملک عدالتی معاون مقرر کٸے جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے مطابق خواجہ حارث بطور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب اس کیس کا حصہ رہ چکے ہیں، انہیں سلمان صفدر، رضار بانی، خالد جاوید، زاہد ابراہیم اور یاسر قریشی کو بھی معاون مقرر کیا جاتا ہے۔

عوامی جلسوں اور پریس کانفرنسز میں ریفرنس کو سماعت کیلئے مقرر کرنے استدعا کرنے والے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز وکیل فاروق ایچ نائیک کی وساطت سے صدارتی ریفرنس پرعدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست دائر کی تھی۔

آج کی سماعت میں بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

صدارتی ریفرنس سابق صدر آصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا جو گزشتہ 12 سال سے زیر التوا ہے۔

پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخارچوہدری کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ نے کیں۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل اوربلاول بھٹو کی نمائندگی کرنے والے فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کون کس کی نمائندگی کرتا ہے۔

اس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بلاول بھٹو نے فریق بنے کی درخواست دے دی ہے، میں اُن نمائندگی کروں گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کی تشکیل پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ صدارتی ریفرنس ابھی بھی برقرار ہے یہ واپس نہیں کیا گیا، ایک سینئر ممبر بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ 2 اور ججزنے ذاتی وجوہات پر معذرت کی، اس کے بعد 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔ ہم آپ کو ورثا، بحثیت وکیل سیاسی جماعت بھی سن سکتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس ریفرنس کو فائل کیے جانے کے بعد کتنےصدور آئے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ، ’ان کے بعد دو صدورآچکے ہیں‘ ۔

اس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی صدرنے یہ ریفرنس واپس نہیں لیا، سپریم کورٹ کی جانب سے ریفرنس پہلے سماعت کیلئے مقرر نہ کےجانے پر افسوس کا اظہارکرتا ہوں۔

چیف جسٹس کی ہدایت پر اٹارنی جنرل نے کمرہ عدالت میں صدارتی ریفرنس پڑھا۔

یہ بھی پڑھیں: ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس پر صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے مقرر

بلاول کی نمائندگی کرنے والے فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ ان پر دباؤ تھا، دوسرے انٹرویو میں جسٹس نسیم شاہ نے کہا مارشل لا والوں کی بات ماننی پڑتی ہے ، یہ انٹرویو جیو پر پروگرام جوابدہ میں افتخار احمد کو دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 2018 میں بھی ریفرنس پر سماعت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

جسٹس مسرت ہلالی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں ٹرائل کے دوران بینچ پر اعتراض کیے جانے سے متعلق استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھی۔

اس دوران اس مقدمے کے مدعی احمد رضا قصوری روسٹروم پر آئے اور سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے نوائے وقت کو انٹرویو کا حوالہ دیا۔ (ذوالفقار علی بھٹو احمد رضا قصوی کے والد کے قتل کے مقدمے میں نامزد تھے جس میں انہیں پھانسی دی گئی)۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی جنہوں نے ریفرنس پر اٹھائے گئے قانونی نکات بھی پڑھ دیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت آصف زرداری کے ریفرنس پر بابر اعوان نے نمائندگی کی تھی۔

قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا بابراعوان کمرہ عدالت میں موجود ہیں؟ جس ہر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بابراعوان کا لائسنس اس وقت معطل ہوگیا تھا، وہ اس وقت کی حکومت کی نمائندگی کررہے تھے۔

اس دوران مدعی مقدمہ احمد رضا قصوری دوبارہ روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہمیں اٹارنی جنرل کو سن لینے دیں۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا اس میں ضمنی ریفرنس بھی آیا تھا؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ متفرق درخواست کے ساتھ چیزیں آئی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں کئی وکلا وفات پاچکے ہیں، کیس میں عدالتی معاونین مقرر کریں گے جن کے ناموں کا فیصلہ بعد میں کرتے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں انٹرویوز کا ٹرانسکرپٹ اور ویڈیوز پیش کروں گا، جس پر احمد رضا قصوری بولے کہ یہ چیزیں تو میں نے دینی تھیں۔

چیف جسٹس نے علی احمد کرد سے پوچھا کہ کیا آپ معاونت کریں گے جس پر انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ، جی میں معاونت کروں گا۔

مخدوم علی خان اور اعتزازحسن کے معاونین وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ مخدوم علی خان کومعلوم نہیں تھا وہ اس کیس میں ہیں یا نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ عدالتی معاون تھے، کسی کو مجبور نہیں کر سکتے۔

اعتزاز احسن کے آنے سے متعلق استفسار پر معاون وکیل نے کہا کہ اعتزاز احسن وکیل بھی ہیں ، بطورمعاون نہیں آئیں گے۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ، آپ تقریرنہ کریں ہاں یا نہ میں بتائیں، معاون وکیل نے نفی میں جواب دہیتے ہوئے کہا کہ، نہیں وہ نہیں آئیں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پولیس سے کیس کا اصل ریکارڈ ملا تھا؟ اتارنی جنرل نے بتایا کہ اصل ریکارڈ نہیں ملا، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ریکارڈ کے 3 بنڈل آئے تھے۔

علی احمد کرد نے کہا کہ مجھے عدالت نے عدالتی معاون مقررکیا تھا، ریفرنس میں عدالت کی معاونت کروں گا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کوئی اورعدالتی معاون ہے؟ معاون وکیل سعد ہاشمی نے بتایا کہ مخدوم علی خان بھی عدالت کی معاونت کریں گے۔

چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ صدارتی ریفرنس میں اب تک کیا احکامات دیے گئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صدارتی ریفرنس میں عدالت نے پنجاب پولیس سے بھٹو ریفرنس کا ریکارڈ منگوایا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالتی حکم میں توبہ کا تذکرہ کیا گیا، کیا کوئی بتائے گا کیوں ذکرہوا، کیا وکیل فاروق نائیک اور احمد رضا قصوری بتا سکتے ہیں؟۔

احمد رضا قصوری نے جواب میں کہا کہ، اس چیز کا ماہر نہیں ہوں عدالت کسی عالم کو بلائے۔

 

صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے 5 سوالات یہ ہیں

 

آصف علی زرداری نے صدارتی ریفرنس میں پانچ سوالات اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ سے رائے طلب کی تھی۔

کیا سابق وزیراعظم ذوالفقاربھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں شامل بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟

کیاپھانسی کی سزا کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پرآرٹیکل 189 کے تحت سپریم کورٹ اورتمام ہائیکورٹس پر لاگو ہو گا؟اگر نہیں تو فیصلے کے نتائج کیا ہونگے؟

کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ منصفانہ تھا؟ کیا ذاولفقارعلی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا یہ فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

کیا یہ سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

کیا سابق وزیراعظم کیخلاف ثبوت اور گواہان کے بیانات انہیں سزا سنانے کیلئے کافی تھے؟

 

 

سماعتیں کب کب ہوئیں ؟

 

پہلی سماعت 2 جنوری 2012 اورآخری 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی جو 9 رکنی لارجربینچ نے کی تھی تاہم اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل بابر اعوان کا وکالت لائسنس منسوخ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے وکیل کی تبدیلی کا حکم دیا تھا ۔ بعد ازاں اسی بنیاد پر یہ ریفرنس ملتوی کردیا گیا تھا۔

نومبر 2012 کے بعد سے اب تک پاکستان کے 8 چیف جسٹس صاحبان مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں تاہم تب سے اس ریفرنس کو سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا گیاتھا۔

موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اکتوبر 2023 میں صحافیوں سے ملاقات میں ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی جلد سماعت کا عندیہ دیا تھا۔

یہ پڑھیں : ذوالفقار بھٹو کیس لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جائے :بلاول بھٹو کی درخواست دائر

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top