جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

ہم سب کرپٹ ہیں

09 فروری, 2023 13:30

پاکستانی قوم بحثیت مجموعی، فکر ی اور ذہنی طورپر کرپٹ ہوچکی ہے۔ یقیناً سب نہیں لیکن اکثریت فکری طور پر بانجھ ہوچکی ہے۔ معاشرتی اقدار آہستہ آہستہ معدوم ہورہے ہیں اور کچھ زاویوں سے تو ہوبھی گئے ہیں۔ چالاکی تو کمال کی ہے مگر عقل مندی سے کوئی تعلق نہیں، ایک سے بڑھ کر ایک جگاڑ کا سامان ہے مگر محنت سے عاری نظر آتے ہیں۔

 

اپنے برائیوں اور غلطیوں پر صرف گمان ہے اور دوسروں کے بارے میں یقین اورایمان ہے۔منہ سے گالی بکنا انداز تکلم کا ایک نہایت ہی عام اور مشہور انداز ہے۔گالی کو گالی نہیں یارانہ اندازسمجھناعام ہے۔گالی میں جنس مخالف کےجسمانی اعضا کی بات کرنا مرَدوں کے معاشرے میں غصہ کا ایک انداز ہے۔مَردوں کی آپسی گفتگو میں تذکرہ زنانہ کرنا ہوس کی یومیہ خوراک ہے۔

 

اس بارے میں پڑھیں : اخلاق سے عاری قوم

 

نوکری کی عمر آتی ہے تو گورنمنٹ جاب کی تلاش کا آغاز ہوجاتا ہے۔قابلیت سے نہیں رشوت سے حاصل کرنے کاکھلم کھلا اعلان ہے۔ پھر اُن ڈیپارٹمنٹس کی تلاش ہے جس میں اوپر کی  کمائی کا  زیادہ امکان ہے۔ یہ صرف دوستوں کی نہیں اکثر اباؤں کی بھی دلی خؤاہش ہےکہ بیٹا سیلری سے نہیں اوپر کی کمائی سے ہی خوش رہ سکتا ہے۔

 

پھر مطلوبہ ڈیپارٹمنٹس میں نوکری حاصل کرکےخون چوسنے کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ پہلے رشوت کو رشوت کہا جاتا ہے مگر اب رشوت کو رشوت نہیں کمیشن، چائے پانی اور مٹھائی بھی کہاجاتا ہے۔اس نوکری کی وجہ صرف رشوت ہی نہیں بلکہ محنت سے بچنا بھی ہے کیونکہ یہ فکر عام ہے کہ سرکاری نوکری میں بڑے فائدے پنہاں ہیں اور آرام ہی آرام ہے زندگی کے آخری ایام تک۔

 

فکری کرپٹ

 

یادداشت کے معاملے میں ہم بڑی بھلکڑقوم ہے۔  دوسروں کو تکلیف پہنچا کر ہم بھول جاتے ہیں ، دوسروں کا حق غصب کرکے ہم اس پرفخر سے اپنا لیبل لگالیتے ہیں۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری غلطیوں کی تومعافی ہے مگر گناہ کی معافی خود اقرا ر کرکے مانگنی پڑیں گی۔

 

آپ کوکیا لگتا ہے یہ جو آپ دوسروں کے ساتھ غلط کرتے ہو یہ کیاخود بخود ختم ہوجاتا ہےاور اس کا مقدمہ کسی رجسٹر میں درج نہیں ہوتا، نہ نہ قدرت کا اک رجسٹر ہے، جہاں پر سب درج ہوتا ہے ،کچھ کاموں کا صلہ دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی، آپ نے اچھا کیا ہے تو پلٹ کر آئے گا اور اگر برُاکیا ہے تووہ بھی پلٹ کرآنا ہی آنا ہے۔

 

یہ پڑھیں :  وقت کی رفتار بہت تیز ہے

 

یہ جو طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا ہے نہ ممکن ہے کہ مکافات عمل کے نتیجے میں ہمارے مقدر کا حصہ بنی ہو۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی کو تکلیف پہنچا کر سمجھتے ہیں کہ یہ عام سی بات ہے مگر کسی کا دل اگرآپ کی بات سے دکُھ جائے تو وہ پھروہ درد کسی اور عدالت میں پہنچ جاتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں بہت سے معاملات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

 

ہمارے نزدیک اب تک اخلاقی معیار کا تعین نہیں ہے ، جب تک غلط کو غلط اور صحیح کوصحیح نہیں سمجھاجائے گا اس وقت تک یہ معاملات بہتر نہیں ہوسکتے ہیں۔ ویسے اخلاقی فکر کی سب سے پہلی نشانی یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ جو میں نےکام کیا ہے یہ غلط ہے نہ کہ اس کو صحیح ثابت کرنے کے لئے تاویل دیں اور بلاشبہ یہ فکر آجانا بھی بہت سکون کا باعث ہے، کیونکہ یہ فکر زندہ ضمیر ہونے کی ایک علامت ہے ۔

 

فکری کرپٹ

 

باتیں تو بہت ہیں اور بہت اچھی اچھی ہیں ،دیواروں پر بھی لکھی ہیں ،کتابوں میں بھی موجود ہے مگر عمل تو یہ ہی ہے کہ صرف باتیں نہ ہو، غلط باتوں کو سمجھنے کا ادراک بھی ہو اور اس سے دور ہونے کی تڑپ، ہمیں بس ڈیڑھ ہوشیار بننےسے گریز کرنا ہوگا ، ہمیں انسان کو انسان سمجھنا ہوگااور زبان اور ہاتھ سے احتیاط برتنی پڑیں گی تاکہ زندگی میں سکون قائم رہیں ،اور پھر سزا اور آزمائش میں فرق بھی سمجھ آجائے گا اور جس دن مشکل کے وقت یہ فرق سمجھ آجائے تو سمجھئےگا کہ ابھی”زندگی "میں رمق باقی ہے۔

نوٹ: جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top