جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

صدر مملکت نے عدالتی اصلاحاتی بل نظرثانی کیلئے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیا

08 اپریل, 2023 11:31

اسلام آباد : صدر مملکت نے آئین کی شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتی اصلاحاتی بل کو پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دے دیا ہے۔

صدر ِپاکستان عارف علوی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 ( عدالتی اصلاحاتی بل ) آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کیلئے پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا۔

صدر مملکت نے کہا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔ بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی قانون ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پوری کرنے کیلئے دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس کرنا مناسب ہے۔

عارف علوی کا کہنا تھا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپیلی، ایڈوائزری، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے۔ مجوزہ بل آرٹیکل 184 تین، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت، سے متعلق ہے۔ مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے، مگر کیا اس مقصد کو آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی۔

صدر مملکت نے کہا کہ آئین ایک اعلیٰ قانون ہے، قوانین کا باپ ہے۔ آئین کوئی عام قانون نہیں، بلکہ بنیادی اصولوں، اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے۔ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کاروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کیلئے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔

عارف علوی کا کہنا تھا کہ آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980 بنائے گئے، جن کی توثیق خود آئین نے کی۔ سپریم کورٹ رولز پر سال 1980ء سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : عدالتی فیصلے نے پوری قوم سمیت سیاسی جماعتوں کو ابہام میں مبتلا کردیا ہے: مولانا فضل الرحمان

انہوں نے کہا کہ ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین نے ہی کی ہے۔ آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کیلئے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 191 کے تحت آئین اور قانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ اپنی کاروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے۔ آرٹیکل 67 اور 191 ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، جو قواعد بنانے میں دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 67 اور 191 دونوں اداروں کو اختیار میں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ دینے کیلئے آرٹیکل 191 کو دستور میں شامل کیا گیا۔ اسی آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر رکھا گیا۔ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار بھی آئین سے ہی اخذ شدہ ہے۔

عارف علوی کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 70 وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے پر بل پیش کرنے اور منظوری سے متعلق ہے۔ آرٹیکل 142اے کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے۔ فورتھ شیڈول کے تحت سپریم کورٹ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ بل کے ان پہلوؤں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top