جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

عدالتی اصلاحات قانون کیس : سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے

13 اپریل, 2023 15:32

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے عدالتی اصلاحات قانون کیس کے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ کیس نے کیس کو سنا۔

درخواست گزار راجہ عامر کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل دیئے کہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کی بحالی کے بعد سے سیاسی بحران میں بڑھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کروانے پر آمادہ نہیں۔ عدالت کو انتخابات نہ کروانے پر از خود نوٹس لینا پڑا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ تین اپریل کو عدالت نے دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین پر عمل کرنے کے عدالتی حکم کے بعد مسائل زیادہ پیدا کیے گئے۔ عدالت اور ججز ہر ذاتی تنقید کی گئی، حکومتی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ اس کے ذمہ دار ہیں۔ بل کے تحت از خود نوٹس اور بینچز کی تشکیل کا فیصلہ تین رکنی کمیٹی کرے گی۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ بل قانون بننے کے لائق ہے؟ کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیر قانونی ہے۔ بل کابینہ میں پیش کرنا اور منظوری دونوں انتظامی امور ہیں۔ بل کو اسمبلی میں پیش کرنا اور منظوری لینا بھی غیر آئینی ہے۔

امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ بل زیر التواء نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے۔ صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کا حصہ بن جائے گا۔ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی سے ہی سپریم کورٹ مکمل ہو کر کام شروع کرتی ہے۔ چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود ہوں بھی تو عدالت مکمل نہیں ہوتی۔ مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد دس دن میں بل قانون بن جائے گا۔ آرٹیکل 191 ہے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے۔ ریاست کے ہر ادارے کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے۔ چیف جسٹس کا آفس کوئی اور جج استعمال نہیں کرسکتا۔

یہ بھی پڑھیں : سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کو چیلنج کردیا گیا

درخواست گزار نے کہا کہ عدالت آئین کی محافظ اور انصاف کرنے کیلئے بااختیار ہے۔ تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ سپریم کورٹ کے رولز موجود ہیں، جن میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کرسکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے، جس کو آئین کا مکمل تحفظ حاصل ہے۔ پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی طرح عدلیہ کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔

امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ صدر ریاست پاکستان کی وحدانیت کی علامت ہے۔ صدر کا عہدہ صرف رسمی نوعیت نہیں ہے۔ صدر نے بل کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی۔ اسمبلی منظوری کے بعد بل میں ترمیم نہیں ہوسکتی۔ بل کی منظوری کے بعد قانون سازی کا عمل مکمل تصور ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کا موجودہ کیس میں حکم زیر التواء قانون سازی میں مداخلت نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ اپنا کام مکمل کرچکی اس لیے یہ مداخلت تصور نہیں ہوگی۔ حسبہ بل کے کیس میں بھی سپریم کورٹ نے منطور شدہ بل کا جائزہ لیا۔ سپریم کورٹ نے حسبہ بل کو غیر آئینی قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حسبہ بل صدارتی ریفرنس کی صورت میں سپریم کورٹ آیا تھا۔ موجودہ کیس آرٹیکل 184/3 کا ہے، جس میں عدالت زیادہ بااختیار ہے۔ آرٹیکل 184/3 میں سپریم کورٹ شادی ہال تک گرانے کا حکم دے چکی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ مجوزہ قانون کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ آئین 184/3 میں اپیل نہیں نظرثانی کا حق دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کا ایک جج دوسرے جج کے خلاف اپیل نہیں سن سکتا۔ کئی مرتبہ ہم وکلاء بھی 184/3 کا شکار ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی اہم معاملہ ہے۔ پارلیمنٹ کا بہت احترام ہے۔ امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالت فیصلے تک مجوزہ ایکٹ کو قانون بننے سے روکے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ حسبہ بل ریفرنس کی صورت میں آیا تھا۔ حسبہ بل میں گورنر جو بل پر دستخط سے روکا گیا تھا۔

امتیاز صدیقی نے استدعا کی کہ وزارت قانون کو فیصلے تک مجوزہ ایکٹ بطور قانون نوٹیفائی کرنے سے روکا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیس کو جلد دوبارہ مقرر کیا جائے گا۔ جائزہ لینا ہے کہ اس معاملہ میں آئینی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔ جلد حکم جاری کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے تمام فریقین، وفاقی حکومت، سیاسی جماعتوں، پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور کو اٹارنی جنرل کو معاونت کے لئے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top