جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

جاوید اختر ، گجرات کاقصائی اور کلبھوشن یادیو !

22 فروری, 2023 14:44

پاکستانیوں کی بہت ساری بُری عادتوں کے ساتھ ایک اچھی عادت بھی ہے ۔ وہ یہ کے وہ مہمانوں کو سر پر بٹھاتے ہیں ، عزت سے نوازتے ہیں ، اب مہمان چاہے دشمن علاقے کا ہو یا دشمن ملک کا۔ آج کل ہر روز سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی ویڈیو وائرل ہوجاتی ہے جس میں کوئی گورا وی لاگر پاکستانیوں کی مہمان نوازی پر حیران رہ جاتا ہے اور پھر پاکستانیوں کی مہمان نوازی پر بڑے بڑے کلمات کہتا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں مہمان نوازی کی ثقافت اب تک جاری ہے۔

 

گزشتہ ہفتے لاہور میں ایک ایک ادبی میلہ سجا ، جہاں بس ادب ہی ادب تھا اورمحبت ہی محبت تھی ، مگر حیرانی یوں ہوئی کہ ادب کی اس محفل میں برصغیر کے ایک بڑے ادیب نے نفرت اور دشمنی والی بات کردی۔ انڈیا کے معروف نغمہ نگار اور مصنف جاوید اختر نے اس محفل کے ایک سیشن میں کہا کہ” میں تکلف سے کام نہیں لوں گا،ہم نے تو نصرت فتح علی خان کے بڑے بڑے فنکشن منعقدکیے، مہدی حسن کے بڑے بڑے فنکشن منعقدکیے لیکن آپ کے ملک میں تو لتا منگیشکر کا کوئی فنکشن نہیں ہوا۔

 

انھوں نے مزید کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ چلیے ہم ایک دوسرے کو الزام نہیں دیتے، اس سے حل نہیں نکلے گا۔ بات یہ ہے کہ آج کل جو اتنی گرم فضا (پاکستان اور بھارت کے درمیان) ہے وہ کم ہونی چاہیے۔

 

پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم بمبئی کے لوگ ہیں ہم نے دیکھا ہمارے شہر پر کیسے حملہ ہوا تھا، وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آئے تھے، نہ مصر سے آئے تھے وہ لوگ ابھی بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں، تو یہ شکایت ہندوستانیوں کے دل میں ہو تو آپ کو بُرا نہیں ماننا چاہیے۔”

 

یہ پڑھیں : ملک دیوالیہ ہوجائے تو پھر کیا ہوتا ہے ؟

 

یہ وہ الفاظ تھے جو انڈیا سے آئے ہوئے مہمان ادیب جناب جاوید اختر نے بہت میٹھے انداز میں کہے اور شرکائےمحفل تالیاں پیٹتے رہ گئے۔ حیرت یہ تھی کہ اس پورے ہال میں ایسا کوئی موجود نہ تھا جو جاوید اختر صاحب کے سامنے ادب کے دائرے میں چند سوال پیش کردیتا یاں پھر سب کے اعصاب پر جاوید اختر سوار ہوگئے تھے کہ کسی نے جرات نہ کی۔ ڈھکی چھپی بات تو ہے ہی نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ہے اور اس میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے اور یہ معاملات یکطرفہ بھی نہیں ۔

 

بہت  اچھی بات ہے جاوید اختر صاحب نے سوال اٹھائیں ، لیکن کچھ سوالات ابھی بھی باقی ہے جو جاوید اختر صاحب کے فہم میں نہیں آئے یا پھر ان کی مجبوری ہے کیوں کہ وہ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں آئے روز ان کے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے مگر ان کو نظر نہیں آتا۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس سوالات ہونگے مگر وہ یہ سوال کرنے کی جرات نہیں کرسکتے ۔کیونکہ ان کے ملک کا وزیراعظم گجرات کا قصائی ہے۔

 

جاوید اختر

 

جاوید اختر صاحب آپ کو 2008 کا حملہ تو یاد رہا مگر 2002 کا حملہ بھول گئے جس میں ریاست نے مذہب کے نام پر آپ کے ہم مذہب شہریوں کو قتل کیا تھا ۔ وہ ہی قاتل آپ کے ملک کا وزیر اعظم ہے آج کل ، یقیناً آپ نے مذمت کی ہونگی مگر ہماری نظروں سے نہیں گزری کاش اس میلے میں آپ یہ سچ بول کر میلہ مزید لوٹ لیتے ۔خیر!

 

اچھا گجرات کے قصائی کا قتل و غارت اور آپ کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن اگر آپ دوران شدید سچ ذکر کلبھوشن یادیو بھی کردیتے تو پھر کیا ہی بات تھی ، یوں آپ کے سلیکٹڈ سچ کو مزید چار چاند لگ جاتے ۔ یا کم سے کم یہ بتادیتے کہ کلبھوشن بھی ایک میلے میں شرکت کے لئے آیا تھا اور اس کو بےگناہ گرفتار کرلیا گیا۔ آپ تو اتنے بڑے شاعر ہیں کچھ تو بولتے یا پھر تخیل سے بھرپور کہانی اپنے دھیمی آواز میں سنادیتے تاکہ کچھ تو سکون آتاکچھ تو اطمینان ہوتا۔

 

یہ پڑھیں : بے در د اشرافیہ اور چیختی عوام

 

جناب جاوید اختر صاحب ، آپ بلاشبہ ایک بڑے ادیب ہیں اور آپ کی ادب دوست زندگی کے ہم قدر دان بھی ہیں مگر یہ ادھوری باتیں آپ جیسے ادیب پر جچتی نہیں ۔ ادیب تو امن کا سفیر ہوتا ہے اور آپ بے امنی والی باتیں کررہے ہیں ۔ آپ بے شک سیاسی رہے مگر ریاست کے بیانیے کو ادب کی آڑ میں نہ پھیلائیں ۔اگر آپ جیسے لوگ ادب کو اس بے ادبی سے استعمال کریں گے تو امن پسند ی کے اس راستے کو نقصان پہنچے گا ۔

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

 

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top