جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

عام انتخابات اور شریف برادران، سیاسی تاریخ کا اہم موڑ

27 جنوری, 2024 13:20

 

نواز شریف 1949اور شہباز شریف 1950 میں پیدا ہوئے اور 1980 کی دہائی سے سیاست میں نمایاں چہرے ہیں۔ نواز شریف نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شوگر، اسٹیل اور ٹیکسٹائل میں دلچسپی رکھنے والے صنعتی گروپ (اتفاق گروپ) کے خاندانی بزنس ہاؤس میں شمولیت اختیار کی، جنرل ضیاالحق کے دور میں سیاسی کیریر کا آغاز کیا اور 1985 میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنے۔

1988 میں مارشل لاء کے خاتمے کے بعد دوبارہ منتخب ہوئے۔ اسی سال اگست میں جنرل ضیاالحق کی موت کے بعد، پاکستان مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی، انہوں نے جس دھڑے کی قیادت سنبھالی اسے مسلم لیگ نواز کا نام دیا گیا۔ اسی دوران 1988 میں شہباز شریف بھی رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہو چکے تھے۔

1990 کے انتخابات میں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے جبکہ شہباز شریف رکن قومی اسمبلی بنے۔ لیکن 1993 میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بعد نواز کا پہلا عہدہ قبل از مدت ختم ہوگیا، جسے مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

اقتدار میں واپس آنے کے بعد نواز نے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا لیکن پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو سے ہار گئے۔ اس بار دونوں بھائیوں نے اپوزیشن میں اہم ذمہ داریاں سنبھالیں، نواز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے جبکہ شہباز شریف پنجاب اسمبلی میں اسی عہدے پر فائز تھے۔

1997 میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے اور نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے جبکہ چھوٹے بھائی شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔ لیکن جب 1999 میں نواز شریف کے فوج کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے گئے تو انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کی کوشش کی جو کہ ایک فوجی بغاوت پر ختم ہوئی۔ فوج کی جانب سے تختہ الٹنے کے بعد نواز شریف حکومت ختم کی گئی۔

نواز شریف کے خلاف انسداد دہشتگردی کی عدالت میں "اغوا، اقدام قتل، ہائی جیکنگ، دہشت گردی اور بدعنوانی” کا مقدمہ چلایا گیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ سعودی عرب کے تعاون سے ہونے والے معاہدے کے تحت شریف برادران کو اگلے 10 سال کے لیے ملک سے جلاوطن کر دیا گیا۔ وہ 2007 میں واپس آئے اور اگلے سال عام انتخابات میں حصہ لیا، مرکز میں پی پی پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی، اور شہباز شریف دوسری بار پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔

2013 کے انتخابات میں نواز کی تیسری بار وزیر اعظم کے طور پر فاتحانہ واپسی دیکھنے میں آئی- بڑے پیمانے پر دھاندلی اور دھوکہ دہی کے دعووں کے درمیان، جب کہ شہباز نے بطور وزیر اعلیٰ اپنا عہدہ برقرار رکھا۔ لیکن 2017 میں سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس میں انہیں مجرم قرار دینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دینے کے بعد بڑے شریف اپنی تیسری مدت بھی پوری نہیں کر سکے۔ 2018 میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد، شہباز شریف نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالا، جب کہ نواز کو پارٹی کا "تاحیات قائد” منتخب کیا گیا۔

اسی سال، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ نااہلی آئین کے آرٹیکل 62 (1) (f) کے تحت دی گئی سزا تاحیات ہے۔ اس وقت لگتا تھا کہ نواز شریف کا سیاسی کیرئیر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد انہیں دو الگ الگ عدالتوں سے ایون فیلڈ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنسز میں بھی سزا سنائی گئی اور وہ اپنی بیٹی مریم نواز اور داماد محمد صفدر کے ساتھ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید رہے۔

اسی دوران شہباز شریف نے 2018 کا الیکشن لڑا اور دوبارہ قومی اسمبلی میں شامل ہو گئے۔ وہ وزیراعظم کے عہدے کے لیے مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے امیدوار بنے لیکن پی ٹی آئی کے عمران خان سے الیکشن ہار گئے۔ اس کے بعد وہ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں قائد حزب اختلاف بن گئے۔

قید کے دوران نواز شریف کو مختلف بیماریوں کے باعث متعدد بار ہسپتال منتقل کیا گیا۔ 2019 میں چوہدری شوگر ملز کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست میں، نواز کو دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا جب ان کے ذاتی معالج نے ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجائی۔ نواز، جنہیں ہسپتال میں "معمولی دل کا دورہ” بھی پڑا تھا، بعد میں شہباز کی جانب سے دائر درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کر لی تھی۔

کچھ دن بعد، اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ کیس میں سابق وزیر اعظم کی 8 ہفتوں کے لیے ضمانت بھی منظور کر لی، طبی بنیادوں پر بھی ان کی 7 سال کی سزا معطل کر دی۔ اس کے بعد نواز شریف ائیر ایمبولینس کے ذریعے لندن روانہ ہوئے، جہاں وہ اگلے چار سال تک خود ساختہ جلاوطنی میں رہے۔ ادھر پاکستان میں شہباز کو متعدد مقدمات کا سامنا تھا، جن میں آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کیس اور نیب کی جانب سے منی لانڈرنگ کا ریفرنس بھی شامل تھا، جس میں انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے سے قبل سات ماہ جیل میں بھی گزارے۔

خود ساختہ جلاوطنی کے دوران، نواز نے فوج اور عدلیہ کے خلاف ایک تند و تیز مہم شروع کی اور یہ دعویٰ کیا کہ ان کے وزیر اعظم کے عہدے سے بے دخلی کے پیچھے اسٹیبلمنٹ کا ہاتھ ہے۔ مسلم لیگ ن نےووٹ کو عزت دو کے نعرے کے تحت ملک بھر میں جلسے جلوس منعقد کیے، لندن میں مقیم نواز شریف نے خطاب کیا جبکہ مریم نواز ملک میں اس مہم کی قیادت کرتی رہیں۔

جب اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے فوج کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے اور ملک کی معاشی صورتحال خراب ہوئی تو مسلم لیگ (ن) کو ایک بار پھر سامنے میں آنے کا موقع ملا۔ نواز شریف نے اپنے موقف میں لچک دکھائی اور مسلم لیگ (ن)، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) بنانے کے لیے سیاسی اتحاد میں شامل ہوگئی، جو بالآخر عمران کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے بعد، شہباز 11 اپریل 2022 کو پاکستان کے 23ویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔

شہباز کا دور متعدد چیلنجوں سے گھرا ہوا تھا، ڈیفالٹ کے بڑھتے ہوئے خدشات، بے مثال مہنگائی، اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدے کے بارے میں غیر یقینی صورتحال وغیرہ۔ انہیں ایک قابل منتظم کے طور پر دیکھا جاتا تھا، بطور وزیر اعظم، شہباز کی حکومت کو بڑے پیمانے پر غیر مقبول فیصلے لینے پڑے، بشمول سبسڈی ختم کرنا اور ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ، بعد ازاں انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ ن نے ملک کو بچانے کے لیے اپنا سیاسی سرمایہ قربان کر دیا ہے۔ 13 اگست کو شہباز شریف مدت ختم ہونے پر ذمہ داری نگراں حکومت کو سونپ دی جو عام انتخابات کروانے کی ذمہ دار تھی۔

نواز شریف چار سال بعد 21 اکتوبر پاکستان واپس پہنچے اور انتخابی مہم کی قیادت سنبھالی۔ حالیہ مہینوں میں شہباز شریف کو تمام مقدمات سے بری کر دیا گیا جبکہ ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز کے فیصلوں کے خلاف نواز شریف کی اپیلیں بھی کامیاب ہوئیں۔

8 جنوری کو، سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت قانون سازوں کے لیے تاحیات نااہلی کو کالعدم قرار دے دیا، جس نے نواز کے لیے حتمی رکاوٹ کو صاف کر دیا۔ تیزی سے بری ہونے کے نتیجے میں دیگر جماعتوں نے نواز کو اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا قرار دیا، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم کے طور پر "منتخب” ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شریف برادران کی سیاسی تاریخ: سول ملٹری تعلقات پر نواز شریف سخت اور شہباز شریف لچکدار موقف رکھتے ہیں، جب کہ نواز نے بار بار سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر برطرفی کی پشت پناہی کا الزام لگایا، ان کے چھوٹے بھائی نے خود کو دور رکھا۔

دونوں بھائیوں نے اقتصادی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر زور دیا ہے۔ اپنے اپنے دور میں حکومت نے سڑکوں کا جال بچھایا اور میٹرو بس کے منصوبے شہباز کی سب سے بڑی کامیابیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

نواز اور شہباز دونوں چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کے پرجوش حامی رہے ہیں اور اسے "ہمارے خطے کی امید اور مستقبل کا راستہ” قرار دیتے ہیں۔

نواز شریف نے اپنے عہدے سے ہٹائے جانے پر نہ صرف سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بلکہ عدلیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، اس پر آمروں کی سہولت کاری کا الزام لگایا اور سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت سپریم کورٹ کے تین ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

دونوں پارٹی رہنماؤں نے پڑوسیوں بالخصوص بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات پر زور دیا ہے۔ نواز شریف کے دور میں، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کا اچانک دورہ کیا، جو ایک دہائی سے زائد عرصے میں اس طرح کا پہلا دورہ تھا۔

یہ پڑھیں :پاکستان کے حالات اتنے اچھے کردینگے کہ ہر گھر میں روزگار ہوگا: نواز شریف

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top