جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

میت کے گھر میں تعزیت اور لوگوں کی بے حسی

09 جون, 2021 16:44

زندگی نام ہے بہت سی کیفیات کا ، بہت سے واقعات کا، بہت سے احساسات کا ، بہت سے جذبات کا۔ زندگی میں خوشی کے موقع بھی آتے ہیں اور زندگی میں غم کے موقع بھی آتے ہیں۔ زندگی میں بہت سے تکلیف دہ لمحات بھی آتے ہیں اور کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان صدمے کی حالت میں ہوتا ہے۔

 

زندگی میں کچھ موقع ایسے آتے ہیں جس میں آپ کے اپنے آپ سے بچھڑجاتے ہیں یعنی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ کئی دنوں کا مسلسل صدمہ ہوتا ہے۔ قریبی لواحقین تو دکھ و تکلیف کی شدیدکیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں جب کےروایتی لواحقین شکل دکھانے یا پھر کھانا کھانے آجاتے ہیں۔

 

اس بارے میں پڑھیں : کراچی کی بجلی اور بجلی گرانے والا ادارہ

 

ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے رخ ہیں جو بہت مثبت ہے جیسے کہ انتقال والے گھر میں سوئم تک چولھا نہیں جلتا اور رشتے دار و عزیر و اقارب کھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔اسی طرح جب شرکاء جنازہ میت کو دفنانے کے بعد قبرستان سے واپس آتے ہیں تو وہاں بھی کھانے کا اہتمام ہوتا ہے اور اس کھانے کومختلف نام سے پکارا جاتا ہے۔

 

یہ کھانا کسی عزیز یا دوست کی طرف سے ہوتا ہے تاکہ جنازے میں شریک افراد جو کافی وقت سے بھوکے ہوتے ہیں وہ کھانا کھالیں ۔ یہ ایک اخلاقی طور پاچھی روایت بھی ہے جس کو وسیع النظری سے دیکھا جائے تو کوئی قباحت بھی نہیں۔ چند قریبی دوست احباب ساتھ بیٹھ کر کچھ لقمے کھالیتے ہیں کیونکہ کافی دیر سے و سب بھوکے ہوتے ہیں۔

 

منزل کا مسافر: کھانا چباچبا کر کھانے کے فوائد

 

 

اس پورے سلسلے میں کچھ بے حس عزیز و اقارب بھی ہوتے ہیں۔یہ وہ رشتے دار یا دوست ہوتے ہیں جن کے چہرے پر تو شاید غم کے آثار ہوتےہیں مگر دل میں غم نہیں۔ ان کی جنازے میں شرکت یا تو مجبوری ہوتی ہے یا پھرخاندانی روایات وپریشر۔لیکن وہ جنازے میں آ تو جاتے ہیں مگر ان کی حرکتیں انتہائی غیر اخلاقی ہوتی ہے۔

 

ایک تو وہ مرنے والوں کے انتہائی قریبی شخص کے سامنے ہنسنے سے بھی گریز نہیں کرتےاور دنیا کی باتوں میں مگن رہتےہیں۔ موقع لگتے ہی غیبت کا پنڈورا باکس بھی کھول لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ اگر کھانے میں بوٹی نہ آئے تو یہ باقاعدہ فرمائش کرکے دیگ سے نکلواتےہیں۔

 

یہ پڑھیں : کراچی کا نوحہ 

 

یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم میت کے گھر کا کھانا کھارہے ہیں یا پھرکسی کے ولیمے کا۔ یہ لوگ باقاعدہ ٹوک دیتے ہیں کہ اس تھال میں بوٹی ڈلوادو ہمارے پاس صرف چاول ہی آئیں ہیں اور تھوڑے ہی فاصلے پر مرنے والا کابیٹا ، بھائی، دوست بیٹھا ہوتا ہے۔ مگر ان بے حس لوگوں کو بس کھانے اور بوٹی سے مطلب ہوتا ہے۔

 

عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں میت کے گھر کے کھانے کی عجیب روایات پڑ چکی ہے جس کا ماضی یقیناً مختلف ہوگا جو وقت کےساتھ تبدیل ہوگیا ہے اور اس کی موجود ہ شکل انتہائی بے حسی پر مبنی ہے۔

 

WAKIL AHMED 🇵🇰🇬🇧🇨🇦 on Twitter: "تہیہ کر لیں کہ آئندہ اگر کبھی کسی جنازے میں شرکت کرنا پڑی تو خواہ ہزار کلومیٹر کر کے کیوں نہ جائیں اور عزیز و اقارب ہی

 

وہ کسی نے بڑی اچھی کہی کہ ” میت گھر میں جسد کاندھوں پر بعد میں اٹھتی ہے دیگ میں چمچ پہلے کھڑک جاتے ہیں ۔لواحقین کی دھاڑیں کم نہیں ہوتیں کہ ” مصالحہ پھڑا اوئے” کی صدائیں پہلے بلند ہوجاتی ہے۔قبر پر پھول سجتے نہیں کہ کھانے کے برتن پہلے سج جاتے ہیں ۔آنکھوں میں آنسو خشک نہیں ہوپاتے کہ عزیز و اقارب کے لہجے پہلے ہی خشک ہوجاتے ہیں۔چاولوں میں بوٹیاں بہت کم ہیں۔فلاں نے روٹی دی تو تھی تو کیا غریب تھے جو دو کلو گوشت اور ڈال دیتے ” ۔(منقول)

 

یہ پڑھیں : کاش کراچی یتیم ہوتا

 

یقینا ً جس طرح معاشرے میں اچھی روایا ت ہے اس طرح کی یہ فرسودہ روایات بھی موجود ہیں۔ مگر یہ والی روایت بےحسی پر مبنی ہے جس میں گھٹیا پن اور بے غیرتی نظر آتی ہے۔افسوسناک بات یہ ہے اس روایت کوسب غلط تو مانتے ہیں مگر اس کے خلاف قدم نہیں اٹھاتے ہیں۔

 

اگر کسی غیر اخلاقی روایت کو ختم کرنا ہے تو عملی اقدام خود بھی کرنے پڑیں گے کیونکہ ہم سے ہی یہ معاشرہ ہے۔ ہم احساس کریں اور اس معاملے کو اپنے حلقہ احباب میں اٹھایا جائے۔ کم سے کم ہم خود اس عمل سے دور ہوکر آغاز کرسکتے ہیں تاکہ تکلیف کا شکار گھرانہ مزید تکلیف کا شکار نہ ہو۔

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

 

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top