جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

بیک وقت الیکشن کیس: عدالت مذاکرات کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی : چیف جسٹس

27 اپریل, 2023 13:47

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاستدانوں کو خود سے مسائل کا حل نکالنا چاہیے عدالت مذاکرات کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی ،مذاکرات سے حل نہ نکلا تو آئین اور ہمارا فیصلہ بھی موجود ہے۔

چیف جسٹس نے پورے ملک میں ایک ہی دن الیکشن کروانے کے کیس کی سماعت میں کہا ہے کہ عدالت مذاکرات کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الااحسن ، جسٹس منیب اختر بینچ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ملک بھر میں ایک دن الیکشن کرانے کی درخواست پر سماعت کی۔

اٹارنی جنرل نے کہا :

آج سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ 19 اپریل کو حکومت اور اپوزیشن میں پہلا رابطہ ہوا، حکومت اور اپوزیشن میں 26 اپریل کو ملاقات پر اتفاق ہوا تھا، 25 اپریل کو ایاز صادق اور سعد رفیق کی اسد قیصر سے ملاقات ہوئی۔

اسد قیصر نے بتایا کہ وہ مذاکرات کے لیے با اختیار نہیں ہیں، گزشتہ روز حکومتی اتحاد کی ملاقاتیں ہوئیں، دو جماعتوں کو مذاکرات پر اعتراض تھا لیکن راستہ نکالا گیا، چیئرمین سینیٹ نےایوان بالا میں حکومت اور اپوزیشن کو خطوط لکھے ہیں، چیئرمین سینیٹ نے حکومت اور اپوزیشن سے چار چار نام مانگے ہیں۔

چیف جسٹس کے استفسار پراٹارنی جنرل نے بتایا کہ منگل کو میڈیا سے معلوم ہوا کہ شاہ محمود قریشی مذاکرات کے لیے بااختیار ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ چیئرمین سینیٹ سےکس حیثیت سے رابطہ کیا گیا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سینیٹ وفاق کی علامت ہے اس لیے چیئرمین سینیٹ کو کہا گیا۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا :

فاروق ایچ نائیک نے مؤقف اختیار کیا کہ تمام حکومتی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، سینیٹ واحد ادارہ ہے جہاں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے۔

فاروق نائیک نے دلائل دیے کہ چیئرمین سینیٹ کا کردار صرف سہولت فراہم کرنا ہے اور مذاکرات تو سیاسی جماعتوں کی کمیٹیوں نے ہی کرنے ہیں، سیاسی ایشو ہے اس لیے سیاسی قائدین کو ہی حل کرنے دیا جائے، سیاست کا مستقبل سیاستدانوں کو ہی طے کرنے دیا جائے۔

پی ٹی ائی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا :

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ حکومت کے اصرار پر عدالت نے سیاسی اتفاق رائے کے لیے موقع دیا تھا، مگر پی ڈی ایم میں آج بھی مذاکرات پر اتفاق رائے نہیں، پی ٹی آئی نے مجھے، فواد چوہدری اور علی ظفر کو مذاکرات کیلئے نامزد کیا۔

حکومت نے تحریک انصاف کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، آج تک مجھ سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، بس چیئرمین سینیٹ نے گزشتہ روز فون پر کہا وزیراعظم کے اصرار پر رابطہ کر رہا ہوں، مگر چیئرمین سینیٹ نے صرف سینیٹرز کے نام مانگے ہیں۔

شاہ محمود نے کہا کہ سینیٹ کمیٹی صرف تاخیری حربہ ہے ، قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر رولز کی خلاف ورزی کی گئی ، کیونکہ عدالت میں زیر سماعت معاملے کو پارلیمان میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا، پارلیمان میں دھمکی آمیز لہجہ اور زبان استعمال ہوئی، کہا گیا کہ توہین پارلیمنٹ ہوئی ہے ، حکومت نے آئین اور عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کا فیصلہ کر رکھا ہے، حکومت سنجیدہ ہے تو ابھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں، پی ٹی آٸی بات چیت کیلئےسنجیدہ ہے، ہم آج ہی بیٹھنے کو تیار ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کو نام دیں کل ہی بیٹھنے کو تیار ہیں، حکومت کے نام تین چار گھنٹے میں فائنل ہو جائیں گے، پی ٹی آئی چاہے تو 3 نام دے دے، پانچ لازمی دیں، بیٹھیں گے تو بات ہوگی، گلے شکوے ہوں گے، حل بھی نکلے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے نیک نیتی دکھانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں، لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے، مذاکرات کے معاملے میں صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا، عدالت کا کوئی حکم نہیں صرف تجویز ہے، قومی مفاد اور آئین کے تحفظ کیلئے اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے ویسے ہی چلے گا، فاروق نائیک کو بھی مذاکرات میں رکھا جائے تا کہ معاملہ ٹھنڈا رکھا جائے۔

فواد چوہدری نے کہا :

فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی آئین تبدیل نہیں کرسکتی، سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ملنا چاہیے، ایسے ہوا تو کوئی بھی حکومت الیکشن کیلئے فنڈز جاری نہیں کرے گی، پارلیمان اور عدالت نہیں صرف آئین سپریم ہے۔

سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے بھی آئین تبدیل نہیں کرسکتا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نہ کوئی ہدایت جای کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹائم لائن جاری کر رہے ہیں، اس کیس کا تحریری فیصلہ اور مناسب حکمنامہ جاری کریں گے۔۔

واضح رہے کہ الیکشن کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ایک ہی روزالیکشن پرسیاسی جماعتوں کے مذاکرات کی پیش رفت رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کی جانی تھی ۔

19اپریل کی سماعت کے حکم نامے میں سپریم کورٹ الیکشن کیلئے فنڈز جاری نہ ہونے پرسنگین نتائج کا انتباہ دے چکی ہے۔حکم میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا فیصلہ حتمی قراردیا گیا تھا۔

گزشتہ سماعت کے دوران انتخابات کرانے کے حوالے سے کیس کی سماعت 27 اپریل تک ملتوی کی تھی۔

 

یہ پڑھیں : چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے پروٹوکول میں شامل وی آئی پی گاڑیاں واپس کردیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top