جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

بھارت : مسلمان خود کو دوسرے درجے کے شہری سمجھنے لگے، نفرت عروج پر پہنچ گئی

01 مارچ, 2022 15:34

نیو دہلی : برطانوی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ میں بھارت کے نام نہاد سیکولر ریاست کا پول کھول دی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف زمین تنگ کی جارہی ہے، مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ہم قربانی کے بکرے ہیں،  بی جے پی کی حکمرانی کے تحت دوسرے درجے کے شہری بن چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اتر پردیش 2014 سے مسلمانوں کے خلاف پرتشدد جرائم کی وجہ سے سرخیوں میں ہے، جب وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بھارت میں اقتدار میں آئی۔

تین سال بعد، بی جے بی ریاست میں بھاری اکثریت حاصل کی اور یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیراعلیٰ مقرر کیا، جو ہندو راہب سے سیاست دان بنے اور مسلم مخالف مؤقف کے لیے مشہور ہیں۔

جیت کے چند ہی دنوں کے اندر، یوپی کے ایک گاؤں نے مسلمانوں کو وہاں سے نکل جانے کے لیے پوسٹر لگائے اور یو پی ان پہلی ریاستوں میں سے تھی، جنہوں نے زبردستی تبدیلی مذہب کے خلاف قانون پاس کیا، جو کہ ہندو خواتین کے ساتھ بین المذاہب تعلقات میں مسلمان مردوں کو ہراساں کرنے اور جیل بھیجنے کے لیے معمول کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے۔

متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو مارا پیٹا گیا اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔ وبائی مرض کے دوران، بی جے پی کے رہنماؤں نے مسلمان مردوں پر "کورونا جہاد” کا الزام لگایا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس طرح کا روز بروز امتیازی سلوک، جو کہیں زیادہ گھناؤنا ہے، مسلمانوں کو پسماندہ کر رہا ہے، جن کی تعداد 40 ملین ہے اور یہ یوپی کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔

مسلمان برادری کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے ہندو قوم پرست حکمرانی کے تحت دوسرے درجے کے شہری بن چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : بھارت سے دورہ پاکستان پر آئے آسٹریلوی کھلاڑی کے خاندان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریٹائرڈ پروفیسر مفتی زاہد علی خان کا کہنا ہے کہ جب سے یوگی  برسراقتدار آیا ہے، مسلمان خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جب بھی ہمارے بچے باہر جاتے ہیں، ہماری خواتین ان کی بحفاظت واپسی کے لیے دعا کرتی ہیں۔

ریاست میں بی جے پی کے نائب صدر وجے پاٹھک نے کہا کہ یہ درست نہیں ہے کہ یوپی میں مسلمان احساس کمتری کا شکار ہیں۔ حکومت ذات پات یا مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہیں کرتی۔ مسلمان انتخابات میں ہمیں بڑی تعداد میں ووٹ دیں گے۔

لیکن ناقدین یوگی اور ان کی پارٹی کے کئی رہنماؤں کے حالیہ اقلیت مخالف ریمارکس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بی جے پی کے ایک قانون ساز نے کہا کہ اگر دوبارہ منتخب ہو گئے تو وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مسلمان ٹوپیاں پہننا بند کر دیں اور ہندوؤں کے ذریعے استعمال ہونے والے ورملین کا پیسٹ لگانا شروع کر دیں۔

علی گڑھ میں حزب اختلاف کی سماج وادی پارٹی کے سابق رکن اسمبلی ضمیر اللہ خان کا کہنا ہے کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ کام کرتے ہیں، ہم ان کے ساتھ تجارت کرتے ہیں، ہم ایک دوسرے کے خاندانوں میں شادیوں میں شرکت کرتے ہیں، لیکن نفرت کی سیاست عروج پر ہے، جب بھی انتخابات قریب ہوتے ہیں تو زیادہ توجہ مرکوز ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم قربانی کے بکرے ہیں۔ ہمیں کھلایا جاتا ہے اور موٹا کیا جاتا ہے اور پھر پارٹی کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ سیاست دان لوگوں کو مشتعل کرنے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے مسلم مخالف جذبات کو ہوا دیتے ہیں۔ انتخابات ختم ہونے کے بعد، سب گھر چلے جاتے ہیں۔

رپورٹ میں سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا کہ مسلمان بھارت میں سب سے غریب مذہبی گروہ ہیں اور ان میں سے تقریباً 46 فیصد غیر رسمی شعبے میں الیکٹریشن، پلمبر، دکاندار اور یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔ یوپی میں بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔

یوپی کے وزیراعلیٰ نے 150 مذبح خانوں کو بند کر دیا ہے، جو مسلمان چلاتے تھے۔ درجنوں ریستوران اور تقریباً سو دکانیں جو گوشت اور انڈے فروخت کرتی تھیں بند ہو گئیں اور ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی ختم ہو گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی ایک خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ نفرت اتنی پھیل گئی ہے کہ لوگ خوفزدہ ہیں۔ ہندو مسلمانوں سے ڈرتے ہیں، مسلمان ہندوؤں سے ڈرتے ہیں۔

رپورٹ میں مقامی صحافی کے شامل بیان میں کہا گیا کہ بی جے پی کے رہنماؤں اور ہندو پجاریوں کی اشتعال انگیز تقریریں اب صرف کھوکھلی بیان بازی نہیں رہی۔ یہ نفرت انگیز تقریر مسلمانوں کی زندگیوں اور معاش کو متاثر کر رہی ہے۔ ریاست اور ہندوستان بھر میں مسلمانیت، مسلم شناخت پر حملہ ہے۔ یہ مسلمانوں کی آہستہ آہستہ صفائی ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top