جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

جہیز،ایک دکھاوا یا سماجی مجبوری؟

31 مئی, 2021 20:23

خدا جس بندے سے خوش ہوتا ہے اسے بیٹی عطا فرماتا ہے۔ لیکن آج21 صدی میں بھی بہت سے مسلمان گھرانوں میں بیٹیوں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔جس دن کسی گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے اسی دن سے ماں باپ کو اس کی شادی اور جہیز کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔

 

باپ دن رات محنت ومشقت کرتا ہے تاکہ اس کے آنگن میں کھلنے والا نازک پھول کسی اور کے آنگن میں جاکر مرجھا نہ جائے اور نہ ہی اسے اپنے ماتھے پر طلاق کا داغ سجا کر اپنے میکے کا رخ کرنا پڑے۔جہیز اس ناسور کی مانند ہے جس نے کئی دہائیوں سے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں رکھا ہے اور اب تک ان گنت خاندانوں کو تباہ و برباد کرچکاہے۔

 

یہ پڑھیں : تصویری مہم یا مدد فی سبیل اللہ

 

جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اپنی بیٹیوں کی شادی پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے اپنی مصنوعی شان وشوکت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہیں غریب گھرانے کی بیٹیاں جہیز کی فرمائش پوری نہ ہونے کے باعث اپنے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہوجاتی ہیں یا تو غریب باپ جہیز کے لیے لیاگیا قرض چکاتے چکاتے موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے، تو کہیں جہیز میں کسی کمی بیشی کے باعث بیٹیاں سسرال والوں کے طعنے ،ذہنی اذی سے دوچار ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں اور اکثر اوقات تو سسرال والے انہیں زندہ بھی جلا دیتے ہیں۔

 

اگر ماں باپ اپنی بیٹیوں کو جدید و پرُ آسائش جہیز نہ دے سکیں تو اس بات کا خمیازہ نہ صرف بیٹی کو بلکہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔

انہیں اکثر جگہ، اور اکثر محفل میں ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض والدین لوگوں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں جبکہ اسلام کی رو سے یہ ناروا سلوک سراسر نامناسب ہے۔

 

جہیز دکھاوا یا مجبوری

 

ایک روایت کا مفہوم ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے اپنی صاحب ذادی حضرتِ فاطمتہ الزہرہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہا کی شادی مبارک کے لیے جو سامان خریدا وہ انہی کے حق مہر کی رقم سے خریدا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی زرہ بیچنے کا حکم دیا جس کے عوض چھ سو اسی درہم حاصل ہوئے چنانچہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ وسلّم نے حضرت بلال حبشی رضی اللہُ تعالیٰ عنہ کو اس میں سے کچھ رقم دی اور حکم دیا کہ "اس رقم سے کچھ کپڑے،خوشبو اور دیگر ضروری سامان خرید لاؤ،”

 

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سامان اپنی بیٹی کے لیے خریدا وہ اپنے داماد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مہر معجل لے کر خریدا۔ لہذا اسلام میں جہیز دینے کی کوئی روایت نہیں پائی جاتی اللّٰہ نے عورت کے لیے حق مہر رکھا ہے۔البتہ اگر والدین بغیر جبر و اکراہ کے اور بغیر نمود ونمائش کے اپنی حیثیت کے مطابق لڑکی کو تحفہ دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور لڑکی اس کی مالک ہوگی۔

 

اس بارے میں پڑھیں : اخلاق سے عاری قوم

 

 

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہیز کی رسم کی ابتداء کہاں سے ہوئی اور یہ کس طرح ہمارے معاشرے میں سرایت کرگئی ؟اصل میں ڈنمارک ، ناروے ، اور آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والے نارمن یعنی وحشی بحری قزاق جنہوں نے آٹھویں صدی میں یورپی ساحلی بستیوں پر تباہ کن لوٹ مار کا سلسلہ شروع کیا۔

 

نویں صدی کے آخر میں فرانس کے شمالی اور مغربی ساحلی علاقوں پر بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے واقعات میں اضافہ ہوا اور وائکنگز نے دریائے سینی کی وادی کے نشیب میں واقع فرانسیسیوں کی سرزمین پر لگ بھگ 900 سال تک مستقل قدم جمائے رکھے۔

 

ان کی آمد سے قبل برطانیہ میں شادی کے وقت جہیز لڑکے کی طرف سے چرچ کے عین دروازے کے سامنے تمام عوام الناس کی موجودگی میں لڑکی کو بطورِ تحفہ دیا جاتا تھا اس کے علاوہ شادی کے اگلے روز لڑکا اپنی بیوی کو ایک علیحدہ تحفہ بھی دیا کرتا تھا لیکن نارمن نے اس رسم کو ختم کیا اور جہیز کی رسم لڑکے کے بجائے لڑکی والوں کے لیے لازم قرار دے دی گئی اور آٹھویں صدی سے لے کر دور حاضر تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔

 

 

جہیز دکھاوا یا مجبوری

 

1857 کی جنگ آزادی کے بعد جہاں برصغیر میں برطانوی راج عمل میں آیا وہیں برطانوی حکومت جہیز جیسی قبیح رسم بھی اپنے ساتھ لے کر آئی جس نے اس وقت سے لے کر اب تک نہ جانے کتنے لوگوں کی جانیں نگلی ہیں

اسکے باوجود آج بھی لوگ اس ناسور کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں یہاں تک کہ اس رسم نے مقابلے بازی اور دکھاوے کا روپ دھار لیا ہے۔

 

امیر خاندان میں والدین اپنی بیٹیوں کو کروڑوں روپے کی مالیت کے جہیز کے ساتھ رخصت کرنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں اس کے برعکس غریب اور سفید پوش گھرانے کے والدین اسی آس پہ اپنی عمر تمام کردیتے ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان ان کی بیٹی کو بنا جہیز کے بیاہ کر لے جائے۔

 

یہ پڑھیں :  ہم خواہشات کے اسیر بن گئے ہیں 

 

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف آواز اٹھانے کے باوجود یہ رسم آج بھی ویسے ہی قائم و دائم ہے اور اس رسم سے جان چھڑانا مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے ۔لیکن اس دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے کیوں کہ ہر تاریک رات کے بعد ایک نئی صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے جو اپنے ساتھ بے شمار نئی امید کی کرنیں لے کر آتا ہے کہ آنے والا کل آج سے بہتر ہوگا اور ہمارے معاشرے میں جہیز کا خاتمہ ہو جائے گا۔

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top