جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

احتجاج کے نام پر بس ڈی پی تبدیل ہوگی ؟

20 مئی, 2021 13:00

ہم پاکستانیوں کا خاص وطیرہ ہے کہ ہماری باتیں بڑی بڑی ہوتی ہے اور عمل کے معاملے میں ہم زیرو ہیں۔دوسرے ملک میں کوئی غلط کام ہو تو ہم احتجاج کے نام پر اپنے ملک میں اپنے شہریوں اور گورنمنٹ کی گاڑیاں جلاتے ہیں۔

ہم احتجاج کے نام پر اپنے ملک کا نقصان کرتے ہیں اوراپنے ہی پولیس والوں کو مارتے ہیں ۔

 

ہم سوشل میڈیا پر بیٹھ کر احتجاج کرتے ہیں ان لوگوںکے خلاف جنھوں نے سوشل میڈیا بنایاہے۔ ہم جن ملکوں پر اپنے موبائلز فونز سے لعنت بھیجتے ہیں وہ موبائل فون بھی انھی ملکوں کی ایجادہوتا ہے۔

آخر ہم نے سوچا کہ احتجاج کا یہ کونسا طریقہ ہے جس سے ہمیں نقصان پہنچ رہا اور جس کے لئے احتجاج ہورہا ہے اسے ککھ کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یہ پڑھیں  : ہم سب انتہا پسند ہیں 

 

کشمیر میں کچھ ہو ہم سڑکوں پر آدھا گھنٹہ کھڑے ہوجاتے ہیں اور دو تین ہفتوں بعد پھر ٹھنڈے ہوجاتے ہیں ۔برما میں کچھ ہو تو فیس بک پر درجنوں پوسٹس کرتے ہیں ۔اس احتجاج سے آخر فائدہ کیا پہنچتا ہے ؟ مان لیا احتجاج ضروری ہے اور ہونا بھی چاہیئے تاکہ آپ کی شناخت مظلوموں کے حامی کے طور پر ہو نہ کہ ظالمین کے چاہنے والوں کے طور پر۔

 

مگر گزشتہ کئی دہائیوں سے سینکڑوں احتجاج تو ہوئے مگر مظلومین کو اس احتجاج سے فائدہ نہ پہنچا اور نہ ظالمین کی صحت پر ۔ اب تازہ تازہ معاملہ جو ہے وہ فلسطین میں ہونے والے ظلم پر ہے ۔

لیکن ہمیشہ کی طرح یہ ہی ہوا کہ سب سے پہلے ہم نے ڈی پی تبدیل کی اور پھر جو کام کیا وہ سوشل میڈیا پر کمینٹس اور پوسٹ کرکے کیا۔لیکن اس سے فائدہ کچھ نہیں ہوتا کیونکہ سب جانتے ہیں ظالم کے ساتھ کون کھڑا ہے اور کوئی خاموش ہے تو کیوں ہے؟

 

the new form of protest to change Display picture of social media account

 

 

دیکھئے اس قسم کے احتجاج کے بعد عرصے دراز تک خاموشی رہتی ہے۔غور کیجئے اسرائیل کے معاملے پر مسلم امہ اور ہر صاحب ضمیر انسان احتجا ج کررہا ہے ۔ کچھ کا احتجاج تو بس سوشل میڈیا پر پوسٹ اور ڈی پی کی تبدیلی کی حد تک ہے، کچھ لوگ سڑکوں پر نکل کر کررہے ہیں ، کچھ لوگ پریس کلب پر کررہے ہیں تو کچھ ایسے پاکستانی مجاہد وکیل بھی ہے جو احتجاج کے نام پر عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ بھی کررہے ہیں۔

 

 

ارے یہ کیسے احتجاج ہے جس میں اپنے ملک کے مسلمان شہریوں کو ہی تکلیف پہنچائی جائے۔یہ احتجاج نہیں ہے یہ تو اپنے فرض سے کوتاہی ہے صاف صاف۔

 

یہ پڑھیں : ہم اس دور کے مطمئین منافق ہیں

 

اچھا چلیں احتجاج کیجئے بالکل کیجئے ،سوشل میڈیا پر ڈی پی بھی تبدیل کیجئے مگر پھر اپنا سوشل میڈیابنالیجئے تاکہ آپ کا موقف دنیا بھر میں جائے۔ آپ اپنی وال پر تو احتجاج کرتے ہیں جس میں صرف آپ کے جاننے والے یا مسلمان ہی ہوتے ہیں ۔

 

یعنی آپ کا موضوع بین الاقوامی ہوتا ہے مگر آپ کی پہنچ صرف ڈومیسٹک سطح تک ہے۔ایک طرف آپ ظالم صیہونیوں کا ذکر کررہے ہیں اور انھی کے گراونڈ یعنی سوشل میڈیا کااستعمال کرکے۔ وہ بھی بہانے بہانے سے ہماری اپنی آئی ڈیز بلاک کردیتے ہیں کیونکہ ان کا پلیٹ فارم ہے تو وہ بد معاشی تو کریں گے۔

 

the new form of protest to change Display picture of social media account

 

 

سوشل میڈیا پر ان کے خلاف بات کرنا قدرے اآسان ہے ۔ان کی بے ہودگی پر تو ہمارے تبصرے ہوتے ہیں مگر علمی معیار پر ہم مقابلہ کرنے کو تیار نہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام انسان ہو یا ریاست وہ ہمیشہ اپنے مفادات کی جانب دیکھتے ہیں ۔

 

ایک طرف امت مسلمہ کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی اسلامی ممالک کےمفادات اسرائیل کے ساتھ جڑے ہیں ، کاروبا رکے سلسلے میں اسرائیل سے بہت سے ملکوں کا قریبی یارانہ ہے جن کو اکثر مسلمان مسلم امہ کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔

 

یہ پڑھیں : سکون حاصل کرنے کے 9 طریقے

 

اس دور میں اب جنگ صرف اسلحے سے نہیں لڑی جاتی ہے بلکہ دماغ سے بھی لڑی جاتی ہے، ٹیکنالوجی سے لڑی جاتی ہے، ترقی سے لڑی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر علم سے لڑی جاتی ہے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں علم کے میدان میں؟ ہم تمام اسلامی ملکوں کاموازنہ اسرائیل سے کریں گے تو ہم مشترکہ طور پراسرائیل سے نیچے نظر آئیں گے۔

 

 

ہمارا سوشل میڈیا بھی نہیں ہم اس معاملے میں بھی محتاج ہیں مغرب کے ۔تقریباً2 ارب مسلمانوں کا کیا ہے اپنا ؟ ہم بڑے بڑے ہتھیار بھی مغرب سے لیتے ہیں، ہمارے پاس اپنا تو کوئی خاص برینڈ نہیں ، ہم ان کو فالو کرتے اور مغرب کی بنائے گئی چیزوں کے دیوانے ہیں۔ انھوں نے ہمیں اپنی چیزوں میں الجھایا ہوا ہے اور ہم ان کے جال میں بُری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔

 

the new form of protest to change Display picture of social media account

 

یہ دور ففتھ جنریشن وار کا دور ہے۔ یہاں ہتھیار کے ساتھ ساتھ دماغ سے بھی لڑنا ہے اورعلم سے بھی۔ دنیا میں اپنا بیانیہ پہنچانے کے لئے مغرب کے سسٹم پر انحصار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

 

اگر اس دور میں ہمیں  اپنا بیانیہ پہنچانا ہے تو علمی میدان میں ہمیں ترقی کرنی ہے۔ٹیکنالوجی کا دور ہے ،اور جسمانی جنگ کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی جنگ بھی لڑنی ہونگی ورنہ ایک بھی محاذ میں کمزور ہوئے تو ہمیں دوسرے محاذ پر مشکل پیش آئے گی۔

 

اب وقت آگیا ہے کی آپ جنگ کے لئے اپنا میدان خود چنے،اب وہ علم کا میدان ہو، ٹیکنالوجی کا میدان ہو یا پھر کوئی اور، ساتھ ساتھ احتجاج کے نام پر ڈی پی تبدیل کرنے کے سلسلے کے بجائے عملی طور پر ظالم کے خلاف میدا ن عمل میں آئیں۔

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

 

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top