جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

ہم اپنی مرضی سے خود زندگی گزارتے ہیں یا پھر ہم مجبور ہوتے ہیں ؟

15 مئی, 2021 00:51

ہماری زندگی بہت تیزی کے ساتھ گزررہی ہے ، ہماری زندگی ہی نہیں بلکہ وقت بہت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے۔ سال مہینوں میں سمٹ رہے ، مہینے ہفتوں میں ، ہفتے دنوں میں اور دن گھنٹوں میں گزررہے ہیں۔
ہم میں سے اکثر لوگوں کی زندگیاں گزرتو رہی ہے مگر خود ساختہ مجبوریوں کے سائے میں گزررہی ہے۔ ہم نے آسان زندگی کو بہت مشکل بنالیا ہے۔

 

ہمارے اکثر فیصلے مجبوری کی وجہ سے ہوتے ہیں یا دوسروں کی دیکھا دیکھی کی وجہ سے ہوتے ہیں اور اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے نیکی کرکے دکھانا مقصود ہو۔

 

اگر ہم اپنے آپ پر اور اپنے عمل پر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ ہماری زندگی میں ہونے والے بہت سے کام دوسروں کی دیکھا دیکھی، دوسروں کو دکھانے کے لئے یا پھردوسروں کی ٹسل میں ہوتے ہیں ۔

ہم یہ کام جان بوجھ کربھی کرتے ہیں اور اکثر نادانستگی میں بھی کرتے ہیں۔

 

ہم لوگوں کی زندگیاں اسی وجہ سے کافی بے چین رہتی ہیں کیونکہ ہم دل کے ساتھ نہیں دماغ کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سسٹم کو خوش رکھ کر اپنادل مار لیتے ہیں۔

ہم اپنے فعل میں بظاہر آزاد ہوتے ہیں مگر سسٹم کو دکھانا مقصود ہوتا ہے کہ ہم ساری چیزیں اسی طرح کر رہے ہیں جس طرح اس کا حق ہے۔

 

ہم مجبور

 

اب جیسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ ایک ساس اور بہو ہے،کچھ کیسز کے علاوہ اکثر کیسز میں ان دونوں کے درمیان مسئلہ رہتا ہے۔ بہو ساس کی خدمت مجبوری کے تحت کرتی ہے نہ کے محبت کی وجہ سے۔

اسی طرح ساس کےلئے بہو جتنی محبت کرنے والی بن جائے بہو کے لیےبیٹی والا گوشہ بن نہیں سکتا۔

 

ممکن ہے بیٹی اور بہو کی غلطیاں ایک سی ہو مگر ساس کے نزدیک جو بیٹی کے لئے غلطی شمار نہیں کی جاتی وہ بہو کے لئے غلطی قر اردی جاتی ہے۔اسی طرح بیٹی اپنی ماں کی ڈانٹ سن کر اس کو انا کا مسئلہ نہیں بناتی مگر اگر ساس ڈانٹ دے تو اپنی توہین سمجھ بیٹھتی ہے اور پھر یہ رشتے اسی طرح مجبوری میں سالوں سال گزارے جاتے ہیں۔

 

 

اسی طرح بہت سے ایسے معاملات ہیں جن کوکرنےکا مقصد دوسرے کی برابری کرنا ہے۔ وہ کام دل سے نہیں ہوتے ہیں بلکہ دوسرے کو دکھانے کے لئے ہوتے ہیں۔

جیسے خاندان میں کوئی ایونٹ ہو مگر تحفے دل نہیں بلکہ دوسرے کی دیکھا دیکھی بڑھ کر دیا جائے جس سےرعب پیدا ہو۔ تحفےکا مطلب محبت نہیں بلکہ صرف ذمہ داری یا مجبوری بن جاتا ہے۔ اکثر کام ناک کے مطابق کرنے ہو تے ہیں نہ کہ دل کے مطابق، یعنی اس طرح کے موقعوں پر ہم مجبور ہوتے ہیں۔

 

 

ہماری زندگی بظاہر آذاد ہے مگر ہم ذہنی و فکری طور پر آذاد نہیں ہیں۔ ہم مجبور ہیں، ہمیں اپنی خوشی نہیں معلوم ہوتی مگر ہم کسی چیز میں کسی دوسرے سے موازنہ کرکے اپنے آپ کو خوش قرار دیتے ہیں۔ ہم اکثر ایسے فیصلے کرتے ہیں جو سسٹم ہم سے کرواتا ہے اور ہم اسے کرتے ہیں مگر ہم اس میں خوش نہیں ہوتے ہیں ۔

 

لیکن وہ مجبوری کہہ لیجئے یا پھر نظام کا پریشر کہہ لیجئے۔  ہم مجبور ہیں یہ مجبوری زندگی بھر ہمارے ساتھ چلتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس زندگی کو اپنی مرضی سے چلارہے ہیں۔ہم میں سے اکثر لوگ اسی طرح مجبوری کےساتھ زندگی گزارتے ہیں اور اس سے زندگی بھر انجان رہتے ہیں۔

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ 

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top