جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

پاکستان کی امت اور پاکستان کا وزیر اعظم

10 اپریل, 2021 13:19

چند دن پہلے پاکستان کے اسمارٹ اینڈ ہینڈسم وزیر اعظم عوام سے براہ راست گفت و شنید میں مصروف تھے ۔ گفتگو جاری تھی اور وزیر اعظم کا اعتماد بلندیوں پر تھا ۔

ایسے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم صاحب نے فحاشی کو ریپ کی وجہ قرار دے دی ، عام الفاظ میں مجرم کے جرم کو کسی اور کی غلطی قرار دے دی۔ وزیر اعظم کا کمال بیان آیا تو نشانہ بننے والی خواتین سوچنے لگی کہ ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتی میں ہمارا کیا قصور ؟

ایک گھریلو نشانہ بننے والی خاتون نے سوچا کہ میں تو گھر میں تھی پھر بھی میرا ریپ ہوگیا۔ 3 سال کی بچی نے بھی یقیناً سوچا ہوگا کہ میں نے تو کوئی فحاشی نہیں کی پھر بھی میرے ساتھ ،

یہ بات سن کر اُس مردہ خاتون نے بھی سوچا ہوگا کہ میرے بدن پہ موجودکفن نے آخر کس کو اشتعال دلایا ہے جس کی بناء پر میرے خاموش جسم کو نوچ لیا گیا۔

 

یہ پڑھیں : خیرات دیکھ کر کیجئے 

 

سوال شروع ہوگئے تھے مگر جواب تسلی بخش نہ ملا۔ ایسے میں پاکستانی امت کے نمائندہ اخبار نے کمال اخلاقی اور صحافی زبان استعمال کرکے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اوراخبار کے مین پیج کے انتہائی بلندی والی لیڈ پر اپنی پست ذہنیت کی کمال نمائندگی کرڈالی۔وہ اخبار جو شروع سے اپنی چٹ پٹی خبروں سے پہلے ہی مشہور تھا اس نے ایک بار پھر اپنی چٹ پٹی گالی سے پاکستان کی اصلی امت کا دل جیت لیا۔

 

پاکستانی مرد جو ہر روز اس گالی کو ہنستے ہنستے دہراتے ہیں جب انھوں نے اپنے پسندیدہ اخبار میں اپنےتکلمی الفاظ پڑھے تو ان کے دل مزید بڑے ہوگئے اور سینہ چوڑا ہوگیا۔ آخر جس امت کے مردوں کے دن رات یہ گالی دیتے ہوئے گزرتے ہوں آخر انھیں یہ کیوں معیوب لگنے لگی۔

 

Tourism can resolve issue of unemployment: PM Imran Khan

 

 

وزیر اعظم کی تقریر اور پھر اگلے روز اس طرح کی زبان کا استعمال دراصل پاکستانی امت کی حقیقت ہے۔ابھی تک ہمارا شعور انتہائی نچلے درجے پر قیام کرتا ہے جہاں ظالم ظالم نہیں ہوتا بلکہ مظلوم ہی قصور وار کہلایا جاتا ہے۔

 

عجب روش ہے اس معاشرے کی ایک تو پہلے کمزور پر ظلم ہوتا ہے اور پھراس طرح کی زبان سے مظلوم کی بے عزتی کی جاتی ہے۔ اخبار کی شہہ سرخی پر لکھی گالی ہو یا پھر ریپ کی وجہ فحاشی والا بیان، یہ فکر صرف وزیر اعظم کی نہیں  اور نہ صرف اخبار کی ہےبلکہ یہ بہت بڑے طبقے کی ہے جس میں غلط کو غلط نہیں مانا جاتا بلکہ غلط ہونے کی کمال توجیہ دی جاتی ہے ۔

 

یہ پڑھیں : ان الفاطوں کی تشریح یہ ہے

 

پوری دنیا میں ریپ کے واقعات ہوتے ہیں، اُدھر بھی ہوتے ہیں جہاں کھلے عام بے حیائی ہے اور اُدھر بھی ہوتے ہیں جہاں پردے پر پابندی ہے ،

مگر دونوں جگہ مجرم وہ ہی ہوتا ہے جو یہ کام کرتا ہے اور اس کو سزا بھی دی جاتی ہے۔ ریپ کی کئی وجوہات ہیں لیکن اس میں نشانہ بننے والے کاکوئی فعل نہیں ہوتا اوراگر یہ عمل دوطرفہ ہو تو یہ ریپ نہیں کہلایا جاتا۔

 

ریپ کو صرف اور صرف فحاشی سے جوڑنا سراسر غلط ہے۔ ریپ کرنے والا اچانک سے ریپ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا بلکہ وہ پلان کرتا ہے یا پھر موقع ڈھونڈتا ہے یعنی وہ پہلے سے کسی کو اپنی طاقت کے بالبوتے پر نشانہ بنانے کے لئے تیار ہیں۔اکثر ریپسٹ ذہنی مریض ہوتے ہیں اور اس لئے وہ عمر نہیں دیکھنے بس جنس دیکھتے ہیں ۔ ساتھ ساتھ عورتوں کا احترام نہ ہونا ، انھیں کمتر سمجھنا ،انھیں کمزور جاننابھی ریپ کی وجہ ہوسکتی ہے اور یہ غلبہ دکھانے کے لئے ہوتاہے۔

 

imran khan victim blaming

 

ترقی پزید ملکوں کےتحقیقاتی اداروں کے مطابق بھی یہ بات ثابت ہے کہ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور اس میں ملزم ریپ کرنے والا ہے نہ کہ جس کا ریپ ہوا ہے۔

ظالم کو ظالم بولنے کے بجائے مظلوم کو ہی ظلم ہونے کی وجہ کہنا انتہائی بد دیانتی ہے۔ اس بیان سے نہ صرف یہ حرکت کرنے والوں کو توجیہ ملی ہے بلکہ ان کو محفوظ راستہ دیا گیا ہے۔

 

ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس طرح کے جرم کرنے والوں کے خلاف سخت قدم لئے جانے کا اعلان ہوتا اور اس معاملے سے نمٹنے کے لئے ٹاسک فورس قائم کی جاتی جو اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے اپنی آراء سے حکومت کو آگاہ کرتی تاکہ اس مسئلے پر آہستہ آہستہ قابو پایا جاتا مگر افسوس اب تک مسئلے کو پہچانا ہی نہ گیا۔

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top