جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

جو اسلامک سکالر نے کیا اگر کوئی اور کرتا تو پھرکیا ہوتا؟

04 مارچ, 2021 16:38

 

ایک اسکالر ہیں اور وہ بھی اسلامک ، ڈاکٹراور اینکر بھی بہت بڑے ہیں ، کمال قسم کے آدمی ہیں ، تحفے بانٹتے ہیں بلکہ صرف بانٹتے نہیں پھینکتےبھی ہیں ، آم بھی کھلاتے ہیں ، غالب فلم بھی دیکھتے ہیں ، بہت بڑی پارٹی کے بہت بڑے ایم این اے ہیں ، بھئی کمال کے ٹرالر ہیں ، ایسی پوسٹ کرتے ہیں کہ بڑوں بڑوں کی جل بھن جاتی ہے ، بلکہ ایک پوسٹ سے لاکھوں لوگوں کےجذبات کو ٹھیس پہنچانے کا ٹیلنٹ بھی رکھتے ہیں۔مگروہ اخلاق سے عاری ہیں اور احساس سےخالی ہیں۔

 

 

اس بارے میں جانئے : سکون حاصل کرنے کے 9 طریقے

 

موصوف انتہائی ٹیلنٹڈ ہیں اور اتنے ٹیلنڈ ہیں کہ لاکھوں ، کڑوڑوں لوگوں کا ایک تصویر سے دل دُکھا دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں حضرت نے ایک سیاسی خاتون رہنما کو ٹرال کرنے کے لئے ایک تصویر کا سہارا لیا  جو ایک ہندو دیوی کی تصویر تھی ۔

 

تصویر تو پوسٹ ہوگئی ، وائرل ہوگئی، ہزاروں ، لاکھوں انجان انسانوں نے اس کو مذاق سمجھا اور اس جگت پر وا ہ واہ کی مگر اس پوسٹ سے لاکھوں پاکستانی ہندوؤں کی  دل آزاری ہوئی ، بات بڑھی اور جب بڑے دل اور زندہ ضمیر رکھنے والوں نے اس حرکت پر آواز اٹھائی تو ڈاکٹر صاحب نے ایک پوسٹ کے ذریعےیہ فرمایا کہ ارے جناب مجھ سے غلطی ہوئی ہے دل آزاری پر معذرت کرتا ہوں اور فقط یہ 2  بے روح  روایتی سطریں لکھ کر ڈاکٹر صاحب خود با خود بری الذمہ قرار پائے۔

 

 
Kuruchikara post about Hindu goddess to make fun of Pak MPs! He apologized  for a threat from a Hindu leader
 
 

سوال پیدا یہ ہوتا ہے اگر اس قسم کی دل آزاری کسی مخالف مذہبی گروہ کے کسی شخص سے ہوتی تو کیا اس کو 2 سطریں لکھنے پر معاف کردیا جاتا؟کیا ہم جیسے پکے مسلمان اس جسارت پر کسی کو معاف کرتے یا پھر ۔ ہندو دیوی تو جانے دیجئےاگر کوئی مخالف مذہبی گروہ کسی دوسرے گروہ کے مولوی کے بارے میں کہ دیں تو کیا وہ برداشت کرلے گا؟

 

 دیوی چھوڑیئے ، مولوی مفتی چھوڑئیے ، کسی مخالف گروہ کے بندے کو  چھوڑیئے ہم تو اپنے سیاسی لیڈر کے اس قدر عاشق ہیں کہ اگر کوئی ہمارے لیڈر کو بولے تو ہم زبان کھینچنے کی باتیں کرتے ہیں۔لیکن کیا یہ والی آزادی یا یہ والی رعایت کی سہولت صرف اکثریت والے گروہ کو ہی حاصل ہے۔

 

اس بارے میں پڑھیں :  خواتین کا احترام ہم پر فرض ہے

 

پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہندو کمیونٹی لاکھوں کی تعداد میں آباد ہے جہان ان کو بنیادی حقوق حاصل ہے ۔اسی ملک پاکستانی کی نیشنل اسمبلی کا ایک ایم این اے  بغیر سوچے سمجھے لاکھوں محب وطن پاکستانیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور پھر مذمت پر بڑی ڈھٹائی سے معذرت کرلیتا ہے ۔

 

یہ حرکت کوئی گلی کا لڑکا کرتا تو سمجھ آتا کہ ناسمجھ ہوگا جو یہ غلطی کی۔ مگر یہ حرکت کرنے والا اسلامک اسکالر بھی کہلاتا ہے اور اسی اسلام میں دوسرے مذاہب کےاحترام کا درس دیا گیا ہے  البتہ حیرت انگیز بات ہے کہ اسلامک اسکالر کی پرنور آنکھیں یہ درس پڑھ نہ پائی۔
 
 
 

بات کرلی گئی،اورمذاق بھی ہوگیا۔ خاتون کا مذاق اُڑاتے اُڑاتے کتنے انسانوں کے دل دکھا گئے موصوف، لیکن ان کو پھر بھی احساس نہ ہوا ہاں البتہ جب دباؤ بڑھا تو سوری لکھ ڈالا۔ عجب انداز  شرمندگی ہے جو دباؤ میں قبول ہوتی ہے ۔

 

لیکن یہ بھی وقتی ہے کیونکہ ان کوعادت ہے مذاق کرنے کی، لیکن ڈاکٹر صاحب کو اب تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ مذاق الگ چیز ہے اور دل آزاری الگ چیز ۔ایک اسلامک ملک کا مسلمان بندہ جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے  اور خود بھی موصوف اسلامک اسکالر ہے تو کیا ایسے لوگوں کو کسی دوسرے مذاہب کے عقیدے پر انگلی اٹھانے  کی کھلی چھوٹ ہے  تو اگر بھارت میں کوئی ہندو مسلمان  کے عقیدوں کے خلاف کوئی بات کرے گا تو ہم کس منہ سے اس بات کی مذمت کریں گے؟

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top