جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

مظلوموں کو انصاف کب ملے گا؟

16 دسمبر, 2022 10:30

میرا ایک بھانجا ہے، نو سال کا گول مٹول، با ادب، ذہین، شرارتی بچہ جسکی آنکھیں چمکتی ہیں اور ہونٹ ہر وقت مسکراتے ہیں۔ جب وہ سکول جانے کیلئے یونیفارم کی خاکی پینٹس پہن کر تیار ہوتا ہے،

 

ہنستا مسکراتا خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکلتا ہے، دل سے اسکی سلامتی کیلئے دعا نکلتی ہے اور ساتھ مجھے اے پی ایس کے 126 بچے یاد آ جاتے ہیں اور دل اندر کہیں گہری تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔ وہ بھی ایسے ہی بچے ہونگے، شرارتی، ذہین، زندگی سے بھرے ہوئے، سجیلے، چمکتے، کھیلتے۔ انکا حق تھا زندگی پر، زندہ رہنے پر، لیکن وہ زندہ نہیں رہے۔

 

آج یعنی 16 دسمبر کو پورے سات سال ہوگئے، ہر پاکستانی انسان کیلئے 16 دسمبر آج بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا حملے کے دن تھا۔ ہمارے لئے تاریخیں بدل جاتی ہیں لیکن شہید بچوں کی ماؤں کیلئے کیلنڈر سولہ دسمبر 2014 پر ٹھہر گیا ہے۔

 

شہید محمد علی کی ماں سے بات ہوئی تھی جن سے حملے کے سال پشاور میں ملاقات ہوئی تھی، وہی جو کہتی ہیں نہیں چاہیں ہمیں شہید شہید کے تمغے، وہ ابتک 2014 میں جی رہی ہیں۔ ان سمیت ہر شہید بچے کا خاندان ان سالوں میں ٹھہر گیا ہے جب انکے بچے موجود تھے، زندہ تھے۔

 

ایسی ہی قیامت ان ٹیچرز، کلرکس، پرنسپل کے گھر میں ہوگی جو کسی کے ماں باپ تھے، بھائی بہن تھے، بینش عمر ٹیچر، فرحت بی بی ٹیچر، اکبر زمان کلرک، احسان اللہ قریشی ڈرائیور، مدثر خان لیب انچارج، محمد بلال چوکیدار، محمد حسین مالی اور جرات کا پہاڑ پرنسپل طاہرہ قاضی، خدا جانے انہیں ستارہ جرات دیا گیا ہے یا نہیں۔ خدا جانے اے پی ایس سانحے کے ذمے دار کیفر کردار تک پہنچیں گے یا نہیں ؟؟

 

یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کرتا نظر آرہا ہے۔ شہید بچوں کے والدین غم میں تو ڈوبے ہی تھے، اب شدید مایوس ہیں۔

 

انصاف کی کوئی امید نہیں ہے، نیشنل ایکشن پلان کو سیاسی بنا دیا گیا، احسان اللہ احسان کو پہلے مہمانوں کی طرح رکھا گیا پھر حساس کاروائی کا نام دیکھ فرار کروا دیا گیا، ضربِ عضب ہو یا رد الفساد دونوں ہی نے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی۔

 

اے پی ایس کی ذمہ دار کالعدم جماعتیں ابھی بھی دہشتگردی کی ایک نئی واردات کر کے ذمہ داری قبول کر لیتی ہیں، سندھ سے لیکر کے پی تک تکفیری مدارس موجود ہیں جہاں پر خود کش حملہ آور بنتے ہیں اور پورے ملک میں پھٹتے ہیں اور پھر مزید بچے یتیم ہو جاتے ہیں، مزید دماغ سلا دئے جاتے ہیں، مزید قیمتی جوان ضائع ہو جاتے ہیں، سبز ہلالی پرچم مزید سرخ ہو جاتا ہے۔

 

اے پی ایس سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کا سن کر قوم کو تسلی ہوئی کہ شاید درد کا درماں ہو، سیاسی پارٹیاں ہوں یا ریاستی ادارے ، قوم سبکی غلطیاں بھلا کر اداروں کیساتھ کھڑی ہوئی لیکن ادارے بھی تو قوم کیساتھ ہوں۔  سیاسی پارٹیاں بھی تو قوم کیساتھ ہوں، کوئی تو ہو جو اس بیچاری زخموں سے خون رستی قوم کا مسیحا بنے۔

 

خدا جانے اس قوم کی قسمت میں اور کتنے جنازے اٹھانا لکھا ہے، خدا جانے ہمارا خون اور کتنا بہنا لکھا ہے۔ معصوم بچوں کو سوچتے آنکھیں تو جل ہی رہی تھیں، اب دل و دماغ بھی سٌلگ اٹھے ہیں۔ گزارش ہے شہدائے اے پی ایس کیلئے ایک فاتحہ و تین سورہ اخلاص پڑھ دیجئے۔

 

نوٹ: جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

 

تحریر  : گل زہرا رضوی

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top