جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

دختر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یوم وفات

09 فروری, 2019 18:39

شہزادی کونین دختر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یوم وفات 3جمادی الثانی.

فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن کا معروف نام فاطمۃ الزھراء ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن بن علی ، حسین بن علی اور محسن بن علی دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔
آپ کی تربیت خاندانِ رسالت میں ہوئی جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا، فاطمہ بنت اسد، ام سلمیٰ، ام الفضل (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس کی زوجہ)، ام ہانی (حضرت ابوطالب کی ہمشیرہ)، اسما بنت عمیس (زوجہ جعفرطیار)، صفیہ بنت حمزہ وغیرہ نے مختلف اوقات میں کی۔ خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی تربیت و پرورش کے لیے فاطمہ بنت اسد کا انتخاب کیا۔ جب ان کا بھی انتقال ہو گیا تو اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمیٰ کو ان کی تربیت کی ذمہ داری دی

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے القاب اور کنیت

آپ کے مشہور القاب میں زھرا اور سیدۃ النساء العالمین (تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار) اور بتول ہیں۔
آپ کا مشہور ترین لقب سیدۃ النساء العالمین ایک مشہور حدیث کی وجہ سے پڑا جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو بتایا کہ وہ دنیا اور آخرت میں عورتوں کی سیدہ ( سردار) ہیں۔اس کے علاوہ خاتونِ جنت، الطاہرہ، الزکیہ، المرضیہ، السیدہ، العذراء وغیرہ بھی القاب کے طور پر ملتے ہیں
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللّہ علیھا اسلام کا ابتدائی زمانہ دیکھا اور وہ تمام تنگی برداشت کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابتدائی زمانہ میں قریش کے ہاتھوں برداشت کی۔ ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کعبہ میں حالتِ سجدہ میں تھے جب ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے ان پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی۔ حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو خبر ملی تو آپ نے آ کر ان کی کمر پانی سے دھوئی حالانکہ آپ اس وقت کم سن تھیں۔ اس وقت آپ روتی تھیں تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کو کہتے جاتے تھے کہ اے جانِ پدر رو نہیں اللہ تیرے باپ کی مدد کرے گا۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی چند احادیث

حضرت فاطمہ زہرا (ع) فرماتی ہیں:

” اگر روزہ دار حالت روزہ میں اپنی زبان، اپنے کان و آنکھ اور دیگر اعضاء کی حفاظت نہ کرے تو اس کا روزہ اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہے “۔

حضرت فاطمہ زہرا (ع) فرماتی ہیں :

” اے علی مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ آپ سے ایسی چیز کی فرمائش کروں جو آپ کی قدرت سے باہر ہے “۔

حضرت فاطمہ زہرا (ع) فرماتی ہیں :

” ماں کے پیروں سے لپٹے رہو ( ماں کا احترام کرو)  اس لئے کہ جنت انہیں کے پیروں کے نیچے ہے “۔

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :

” عورتوں کے لئے خیر و صلاح اس میں ہے کہ نہ تو وہ نا محرم مردوں کو دیکھیں اور نہ نامحرم مرد ان کو دیکھیں “۔

حضرت فاطمہ زہرا (ع) فرماتی ہیں :

” میرے نزدیک تمہاری اس دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں: تلاوت قرآن مجید ، زیارت چہرہ رسول خدا  اور راہ خدا میں انفاق “۔

حضرت فاطمہ زہرا (ع) فرماتی ہیں :

” ہر وہ شخص جو اپنے خالصانہ عمل کو خداوندعالم کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے خدا بھی اپنی بہترین مصلحت اس کے حق میں قرار دیتا ہے “۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی

حضرت فاطمہ زہرا (ع)سے شادی کی خواہش کئی لوگوں نے کی جن میں سے کچھ پر رسول اللہ نے غضب ناک ہو کر منہ پھیر لیا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے اپنے لیے خواستگاری کی تو دونوں کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اس سلسلے میں وحیِ الٰہی کا انتظار ہے۔
بعد امام علی علیہ السلام نے اسی خواہش کا اظہار کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبول کر لیا اور کہا ‘مرحباً و اھلاً۔۔
بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ اے علی خدا کا حکم ہے کہ میں فاطمہ کی شادی تم سے کر دوں۔ کیا تمہیں منظور ہے۔ انہوں نے کہا ہاں چنانچہ شادی ہو گئی۔
ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں۔ حضرت علی (ع) و فاطمہ سلام اللّہ علیھا کی شادی یکم ذی الحجہ 2ھ کو ہوئی۔

واقعہ مباہلہ

مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے اور ان چند واقعات میں سے ایک ہے جس میں حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا کو جنگ کے علاوہ گھر سے نکلنا پڑا۔ نجران کے مسیحی جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملنے آئے اور بحث کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور کسی طرح نہ مانے تو اللہ نے قرآن میں درج ذیل آیت نازل کی
اے پیغمبر! علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ سورۃ آل عمران آیۃ 61
اس کے بعد مباہلہ کا فیصلہ ہوا کہ مسیحی اپنے برگزیدہ لوگوں کو لائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آیۂ مباہلہ پر عمل کریں گے اور اسی طریقہ سے فیصلہ ہوگا۔ اگلی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ساتھ حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کو چادر میں لپیٹے ہوئے حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا کو لیے ہوئے آئے۔ ان لوگوں کو دیکھتے ہی مسیحی مغلوب ہو گئے اور ان کے سردار نے کہا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے بد دعا کریں تو روئے زمین پر ایک بھی مسیحی سلامت نہ رہ جائے گا۔۔۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات

حضرت عائشہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ:
مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاطمہ کو نزدیک بلا کر ان کے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں۔اس کے بعد آپ نے پھر سرگوشی کی تو آپ مسکرانے لگیں۔ حضرت عائشہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میرے بابا نے اپنی موت کی خبر دی تو میں رونے لگی۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے میں ان سے جاملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔

یومِ وفات حضرت فاطمہ زھرا سلام اللّہ علیھا 3 جمادی الثانی

آپ کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات ایک عظیم سانحہ تھا۔ اس نے حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا کی زندگی تبدیل کر دی۔ آپ (س) شب و روز گریہ کیا کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میراث میں سے بھی انہیں بوجوہ کچھ نہ مل سکا جس سے مالی پریشانیاں بھی ہوئیں۔ مسئلہ فدک و خلافت بھی پیش آیا۔ اہلِ مدینہ ان کے رونے سے تنگ آئے تو حضرت علی علیہ السلام نے ان کے لیے مدینہ سے کچھ فاصلے پر بندوبست کیا تاکہ وہ وہاں گریہ و زاری کیا کریں۔ اس جگہ کا نام بیت الحزن مشہور ہو گیا۔
اپنے والد کی وفات کے بعد آپ (س) نے مرثیہ کہا جس کا ایک شعر کا ترجمہ ہے کہ ‘اے ابا جان آپ کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دنوں پر پڑتیں تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top