مقبول خبریں
عورت مارچ کے توجہ طلب نعرے
عورت مارچ کی تیاریاں زور سے شور سے جاری ہیں ۔مارچ میں ہونے والے اس مارچ کے بارے میں لوگوں کی رائے کافی متصادم ہے اور ہر کوئی اپنے زاویے سے اس مارچ کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کررہا ہے۔ گزشتہ سال کے مارچ میں پلے کارڈ پر درج کچھ نعروں پر کافی لوگوں نے برُا منایا تھا جو سمجھ سے بالاتر ہے ، وہ نعرے الفاظ میں شائد سخت ہوں مگر ان نعروں کی پیچھے ایک تکلیف اور درد پنہاں تھا۔ ہم جیسے لوگوں کے تصور کی حد اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ ہم اس فکر تک نہیں پہنچ سکتے جس میں اس کے حقیقی مطلب و معنی موجود ہوں۔
اس بارے میں جانئے : عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے چند باتیں
پلے کارڈ پردرج نعرے اور اُن نعروں کی تشریح
میرا جسم میری مرضی :
اس نعرے میں غلط کیا ہے ؟ ایک عورت کے جسم پر اس کی مرضی ہے نہ کہ آپ کی ۔ جب چاہا آپ نے اسے نوچ دیا ، جب چاہا اپنی آنکھوں سے اسے تار تار کردیا ، جب چاہا کسی معصوم کلی کو مسل دیا۔آپ نے اپنی ہو س کو ہمارے کپڑوں سےجوڑدیا۔ نہ یہ 4 سال کی ہوں تو محفوظ ہیں اور نہ مرنے کے بعد بھی۔ زہنی بیمار لوگ تو بس انھیں نوچنے سے مطلب رکھتےہیں۔ اس لئے کہتی ہیں کہ میرا جسم میری مرضی۔
نکاح میں ہو ں گرفتاری میں نہیں :
نکاح جیسے خوبصورت رشتے میں بندھنے کے بعد پدر شاہی کے زعم میں مبتلا مردوں کی اصلیت کُھلتی ہے۔ نکاح ہوگیا ، لیکن نکاح کے بعد وہ آپ لڑکی آپ کی بیوی ہے نہ کہ غلام ۔جب چاہا گالی دے دی، جب چاہا تھپڑ ماردیا،جب چاہا سسرال سے پیسے کی ڈیمانڈ کردی۔ جس طرح شوہر کے حقوق ہے اسی طرح بیوی کے بھی حقوق بھی ہیں۔ حقوق نہ دینے والا ظالم کہلاتا ہے اب وہ مرد ہو یا پھر عورت ۔
اس بارے میں جانئے : خواتین کا احترام فرض ہے
مجھے حیاء سکھانے سے پہلے اپنی سرچ ہسٹری دیکھو:
یہ نعرہ سوشل میڈیا وارئیرز کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ جو پوری رات پورن دیکھتے ہیں اور صبح اٹھ کر کسی خاتون کی پکچر کے نیچے لکھتے ہیں کہ یہ ہمارا اسلام نہیں ہے یہ بے حیائی ہے یہ فحاشی ہے۔جینز کی پینٹ اور ٹی شرٹ والی لڑکی کی تصویر کے نیچے بے حیاء اور فحاش لکھنے والے وہ ہی لوگ ہےہیں جن کی سرچ ہسٹری دیکھیں گی تو منافقت کا اندازہ ہوگا اور وہ بھی فحاش منافقت کا۔
میں 14 سال کی ہوں ، مجھے اپنا بچپن چاہیئے شوہر نہیں:
اگر اس مارچ میں یہ نعرہ لگتا ہے اور اس پر عمل ہوتا ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ قانون تو موجودہے مگر عمل نہیں ۔ 14 سال ، 12 کی عمر بھی بھلا کوئی عمر ہوتی ہے۔گڑیوں سے کھیلنے کی عمر میں لڑکی کی شادی ہوجاتی ہے اور پھر اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے ۔ایک بڑی عمر کا مردکس طرح معصوم کلی کو مسلتا ہے جو کچھ جانتی بھی نہیں سوائے اس کے جو اس کا شوہر بولےوہ ماننا ہے بس۔ سوچیئے تو ذرا۔یہ نعرہ نہیں مطالبہ ہے اور بلکل حق پر ہے۔
تعلیم ہر لڑکی کا حق:
تعلیم تو ہر انسان کا حق ہے تاکہ اس کو شعور ملے ،اس میں ادب وتہذیب پروان چڑھے ۔تو بھلا لڑکی کو اس کا حق کیوں نہیں آخر۔ کیوں اس کا حق نہیں کہ وہ تعلیم حاصل کرے ۔ ویسے بھی عورت تو نسل کی تربیت کرتی ہے اور یہ تعلیم حاصل کریں گی تو نسل تربیت پائے گی اور ایسی نسل جس میں عورتوں کا احترام واجب سمجھا جائےگا ۔
نام صرف بیٹا ہی نہیں بیٹی بھی روشن کرسکتی ہے:
کتنی خوبصورت بات ہے۔ ضروری نہیں نام بیٹا ہی روشن کرے۔ بیٹی بھی توکرسکتی ہے۔ نسم حمید بھی کرسکتی ہے۔ ملالہ بھی کرسکتی ہے۔زارا نعیم بھی کرسکتی ہے۔عارفہ کریم بھی کرسکتی ہے۔مریم مختار بھی کرسکتی ہے۔ والدین سے گزارش ہے کہ انھیں بس موقع دیجئے اور اعتماد دیجیئے پھر دیکھئے کہ خواتین بہت کچھ کرسکتی ہیں اور نام روشن والدین کا ہوگا۔
یہ پڑھیں : دعا کرتی ہوں کہ اب دوبارہ سے انسانوں کی شکل نہ دکھائے
عورتوں اور لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی نا منظور:
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اندرون سندھ اور شہری علاقوںمیں خوف اور دھونس کے ساتھ مذہب تبدیل کرایا جاتا ہےاور پھر جبری شادی کرائی جاتی ہے ۔کوئی وڈیرا ،کوئی ظالم سیٹھ طاقت کے بل بوتے عورتوں اور لڑکیوں کا مذہب تبدیل کراتے ہیں اور پھر ان سے زبردستی شادی رچاتے ہیں ۔وہ بیچاری اتنی کمزور ہوتیںہیں کہ کوئی اس کی آواز نہیں سنتا کیونکہ ظالم طاقتور ہوتا ہے ۔یہ نعرہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی نظام پر داغ ہےجس پر آواز اٹھانا بےشک ایک احسن عمل ہے۔
ماں ہوں بہن ہوں گالی نہیں ہوں:
آس پاس ذرا کان لگائیں مردوں کی گفتگو سنیئے۔ آپس کے غصے اور لڑائی میں بھی ذکر ماں کا ہوتا ہے اور بہن کا ہوتا ہے اوروہ بھی بہت غلط انداز و لہجے میں ۔ اتنے خوبصورت رشتے کو گالی کے ساتھ جوڑ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ صرف غصے میں نہیں بلکہ یہ مذاق میں روزانہ کی گفتگو میں عام الفاظ ہے جنھیں اکثر مرد اس کو استعمال کرنا کول سمجھتے ہیں ۔
گھٹیا میرا نعرہ نہیں تمھاری سوچ ہے:
اگر کوئی انسان اپنے حقوق کے لئے نکلتا ہے اور اس حقوق کو حاصل کرنے کے لئے نعرے بلند کرتا ہےتو کم سے کم ان نعروں کی حقیقت کو سمجھاجائے ۔دنیا تنقید برائے تنقید سے آگے نہیں بڑھتی بلکہ تنقید برائے تعمیر سے پروان چڑھتی ہے۔ اگر آپ کو یہ نعرے گھٹیا لگتے ہیں تو میرے خیال سے یہ سوچ گھٹیا ہے یا پھرجانب دار ہے یا پھر قدامت پسند۔ مختلف زاویے سے ان نعروں کو سمجھئے شاید ذہن بیدار ہوجائے۔
نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
[simple-author-box]