جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی قرار، سپریم کورٹ کا فوری رہا کرنے کا حکم

11 مئی, 2023 17:54

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فوری گرفتار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے دوبارہ رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کل اسلام آباد ہائیکورٹ پیش ہوں، ہائیکورٹ جو فیصلہ کرے گا آپ کو ماننا پڑے گا۔

عمران خان کو 15 گاڑیوں پر مشتمل سکیورٹی قافلے میں سپریم کورٹ لایا گیا، عمران خان کو کمرہ عدالت میں پہنچانے کے بعد کمرہ عدالت کو بند کردیا گیا۔

سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے، اور پولیس کا انسداد دہشت گردی اسکواڈ عدالت کے اطراف موجود تھی جب کہ پولیس کی جانب سے عدالت کے باہر سے غیر معینہ گاڑیوں کو بھی ہٹادیا گیا تھا۔

سماعت کا احوال:

سپریم کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کیخلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر بھی بینچ میں شامل ہیں۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان درخواست جمع کرانے کیلئے بائیو میٹرک کرانے گئے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر تھی؟ عمران خان کو دوسرے کیس میں گرفتار کیا گیا۔ عمران خان کو ایک اور کیس میں بھی طلب کیا گیا تھا۔ کیا کسی شخص کو احاطہ ودالتث سے گرفتار کیا جاسکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کو رجسٹرار ہائیکورٹ سے گرفتاری سے پہلے اجازت لینی چاہیے تھی۔ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے۔ نیب کو کتنے افراد مے گرفتار کیا؟ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کو 80 سے 90 افراد نے گرفتار کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 90 افراد احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا توقیر رہی؟ کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے؟ ماضی میں عدالت میں توڑ پھوڑ کرنے پر وکلاء کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی گئی۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کسی فرد نے عدالت کے سامنے سرنڈر کردیا تو اس کو گرفتار کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کوئی شخص بھی ائندہ انصاف کیلئے خود کو عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا۔ گرفتاری سے قبل رجسٹرار سے اجازت لینی چاہیے تھی۔

وکیل عمران خان سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر کی گئی۔ ایسے واقعات ہائیکورٹ میں پہلی بار ہوئے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم اس وقت صرف عدالت کی عزت اور انصاف کی فراہمی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔

سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ عدالت دیکھے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کس طریقے سے کرائے گئے۔ آئی او کی عدم موجودگی میں نیب نے عمران خان کو گرفتار کیا گیا۔ سپریم کورٹ کو عدالت کی توقیر کو بحال کرنا ہوگا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب ایسے کئی سالوں سے کر رہا ہے۔ نیب نے منتخب عوامی نمائندوں کو تضحیک سے گرفتار کیا۔ یہ طریقہ کار بند کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عمران خان نے بائیؤ میٹرک کروالی تھی؟

وکیل بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ عمران خان کی درخواست کو ڈائری نمبر لگ چکا تھا۔ ہم نے اسی دن درخواست سماعت کی استدعا کی تھی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا وارنٹ گرفتاری چیلنج کیے گئے؟ وکیل بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمیں وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کا پتہ نہیں چلا۔ سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کو وارنٹ گرفتاری کے اجراء کا معلوم نہیں تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ لیڈرز عدالت میں پیشی پر لوگوں کو ساتھ لے کر مت آئیں۔ ہر پیشی پر عدالتوں کے باہر ہنگامے ہوتے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت ہم گرفتاری کے طریقے اور عدالت کی توقیر کا معاملہ دیکھیں گے۔ ہر کسی کو عدالت کے اندر تحفظ ملنا چاہیے۔ ہم ابھی اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہیں۔ ہم عدالت کی توقیر کو بحال کریں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میانوالی کی ڈسٹرکٹ کورٹ پر حملہ کیا گیا جو بدقسمتی ہے۔ عدالت پر حملے پر آج میرا دل دکھا ہے۔ ایسے کیسے ہورہا ہے اور کوئی نہیں روک رہا؟ معلوم کریں کہ یہ حملہ کس نے کیا۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی لوگوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ سیاسی معاملات عدالتوں میں نہ لائیں۔ لیڈر شپ کو اپنے فالورز کو روکنا چاہیئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ باہر جو کچھ ہو رہا ہے وہ فوری طور پر رک جانا چاہیئے۔ انصاف کے لئے ضروری ہے کہ عدالت میں تحفظ ملنا چاہیئے۔

وکیل گوہر خان کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ میں 3 مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ان درخواستوں کی سماعت کے ساتھ جلد سماعت کی درخواست بھی دائر کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے اس کیس میں کال اپ نوٹس جاری کیا تھا۔ آپ نے کال اپ نوٹس کا کوئی جواب دیا۔ بظاہر لگ رہا ہے انہوں نے کال اپ نوٹس جاری کئے۔ اپ نے نیب کی کاروائی کا جواب دیا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عدالت کی توقیر کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہے کہ وارنٹ گرفتاری پر قانون کے مطابق عمل کیا گیا یا نہیں۔ ہمارے سامنے وارنٹ گرفتاری کا معاملہ ہے ہی نہیں۔ دیکھنا ہے وارنٹ گرفتاری پر جس طرح عملدرآمد کیا گیا وہ درست تھا یا نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ نیب کا نوٹس آتا ہے آپ کی طرف سے کوئی پیش نہیں ہوتا۔ ایسے نہیں ہوتا سب کو قانون پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب وارنٹ میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا کہا گیا؟ وکیل سلیمان صفدر نے تسلیم کیا کہ نوٹس میں ذاتی پیشی کا کہا گیا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر کوئی رول آف لاء کی بات کرتا ہے عملدرآمد کوئی نہیں کرتا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نیب کا نوٹس موصول ہونے کے بعد ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دی جاسکتی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان کو نیب میں پیش ہونا چاہیے تھا یا ضمانت کرواتے۔

وکیل سلیمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کو ان کی رہائش گاہ یا راستے سے گرفتار کیا جاتا تو الگ بات تھی۔ عدالت کے اندر سے گرفتار کر کے کیا پیغام دیا گیا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے اسلام آباد ہائیکورٹ کا آرڈر بھی موجود ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں چیف جسٹس کو بلا کر پوچھیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عمران خان کو 2 مارچ کو نوٹس ہوا؟ کیا عمران خان نے نیب کے نوٹس کا جواب دیا؟ کیا نوٹس وصولی پر عمران خان نیب کے سامنے پیش ہوئے ؟

وکیل سلیمان صفدر نے بتایا کہ عمران خان نیب کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ نیب نے انکوائری کو تفتیش میں تبدیل کیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ گرفتاری سے قبل کتنے نوٹسز بھیجے گئے؟ نیب ڈپٹی پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس بھیجا گیا۔

یہ بھی پڑھیں : القادر یونیورسٹی کیس، نیب کی تفتیش شروع، عمران خان کو سوالنامہ تھمادیا گیا

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کو ایک سے زائد نوٹس بھیجنے چاہیے تھے۔ عمران خان کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا گیا؟ عمران خان کو ان کے گھر یا راستے میں کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا جان بوجھ کو عمران خان کو عدالت سے گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 8 مئی کو وزارت داخلہ کو وارنٹ گرفتاری ہر عملدرآمد کیلئے لکھا۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان لاہور میں تھے تو وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کیلئے وفاقی حکومت کو کیوں لکھا؟ نیب نے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں لکھا؟ نیب پراسیکیوٹر صاحب معاملات کو پیچیدہ مت بنائیں۔ نیب نے پاکستان کا بہت نقصان کردیا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر کا ایسا رویہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت نے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کرایا۔ کیا گرفتاری کے وقت نیب کا کوئی شخص وہاں موجود تھا؟ کس فورس نے عمران خان کو گرفتار کیا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بائیو میٹرک کمرے میں کس نے گرفتاری کی نیب کو یہ بھی معلوم نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کو جس طرح گرفتار کیا گیا، اس کا دفاع ممکن نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ مستقبل کے لیئے مثال قائم کی جائے۔ بنیاد کمزور ہو تو عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ عمران خان کو بلا کر کہیں گے کہ اپنے فالورز کو کہے کہ کسی سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کو ایک گھنٹے میں عدالت پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت دی کہ آئی جی اسلام آباد خود پیش کریں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ کوئی اور نہیں آئے گا۔ جو اس وقت عدالت میں موجود ہیں ان ہی کو آنے کی اجازت ہوگی۔ عمران خان کے ساتھ کارکنان کو آنے کی اجات نہیں ہوگی، یقینی بنایا جائے۔ احاطہ عدالت کے اندر نقصان کسی صورت قابل برداشت نہیں۔ املاک کو نقصان پہنچانے کی مذمت کرتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان عدالت جتھے لیکر مت آئیں۔ ہر فرد قانون پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیوں نہ گھڑی کو واپس بائیو میٹرک کے مرحلے پر پہنچا دیں۔

پولیس نے تقریباً پونے 6 بجے عمران خان کو عدالت میں پیش کیا، عمران خان کے کمرہ عدالت میں داخلے کے بعد کمرہ عدالت کے دروازے بند کردیے گئے۔

عمران خان کو سخت سکیورٹی میں ججز گیٹ سے سپریم کورٹ لایا گیا، عمران خان پیدل چلتے ہوئے طویل راہداری سے کمرہ عدالت پہنچے۔

چیف جسٹس نے عمران خان کو روسٹرم پر بلالیا اور کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے، ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں، یہ بات کی جا رہی ہے کہ آپ کے کارکنان غصے میں باہر نکلے۔

سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا اور عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے دوبارہ رجوع کرنے کا حکم بھی دیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ایک شخص کورٹ آف لاء میں آتا ہے تو مطلب کورٹ کے سامنے سرنڈر کرتا ہے، ہم سمجھتے ہیں عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ 8 مئی کو کورٹ میں بائیو میٹرک روم میں موجود تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ کل کیس کی سماعت کرے، عمران خان کل ہائی کورٹ میں پیش ہوں، ہائی کورٹ جو فیصلہ کرے وہ آپ کو ماننا ہوگا، عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی تھی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر سیاستدان کی ذمہ داری ہے کہ امن و امان کو یقینی بنائے۔

اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے ہائی کورٹ سے اغوا کیا گیا، ڈنڈے مارے گئے، ایسا تو کسی کرمنل کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا، اس کے بعد کچھ علم نہیں کیا ہوا، ابھی تک مجھے نہیں پتہ کیا ہوا، جو عدالت کہے گی ہر کیس میں پیش ہوں گا، میں معذرت چاہتا ہوں جو کچھ ملک میں ہوا۔

عمران خان نے کارکنوں کو پر امن رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیئے، کارکنان پرامن ہو جائیں، ملک میں انتشار نہیں چاہتے، ملک میں صرف الیکشن چاہتے ہیں، سب کو کہتا ہوں سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان آپ سے جو ملنا چاہتا ہے ان کی فہرست دیں، اگر کوئی رات رکنا چاہتا ہے تو اس کی اجازت دیں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سماعت مکمل، کچھ دیر بعد تحریری حکم نامہ جاری کریں گے۔

عمران خان کی گرفتاری کے خلاف درخواست پرسماعت چند منٹ میں مکمل کرلی گئی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top