جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

پنجاب، کے پی انتخابات کیس : فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد، سماعت 3 اپریل تک ملتوی

31 مارچ, 2023 15:51

اسلام آباد : عدالت نے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کو طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں تاخیر سے متعلق پی ٹٰی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹیو کونسل عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو بعد میں سنیں گے۔

حسن رضا پاشا نے کہا کہ بار کا کسی کی حمایت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فل کورٹ بینچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس کر لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ پر ہم سوچ رہے ہیں۔ ججز کے آپس میں تعلق اچھے ہیں۔ کل اور آج 2 ججز نے سماعت سے معذرت کی۔ باہمی اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی۔ کچھ معاملات پر ہماری گفتگو ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی معاملات سامنے آئے، جس پر میڈیا، پریس کانفرسنز سے تیل ڈالا گیا۔ عدالت نے تمام معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا۔ کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کر رہے ہیں۔ کچھ دوسرے ججز پر تنقید کر رہے ہیں۔ ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔

عدالت نے پاکستان بار کونسل کے چیئرمین کو کہا کہ اس معاملے پر مجھے چیمبر میں ملیں۔ آج پہلی بار آپ عدالت آئے ہیں۔ باتوں سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں۔ چیمبر میں آئیں آپ کا بہت احترام ہے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی۔ میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کر دیتے ہیں۔ عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا۔ توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔ اٹارنی جنرل صاحب جو نکتہ اٹھانا چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے کچھ مقدمات میں حالات کی پیروی کیلئے فریقین کو ہدایت کی۔ عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کریں۔ ملک میں ہر طرف درجہ حرارت کم کرنا چاہیئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درجہ حرارت کم کرنے کیلئے آپ نے کیا کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وقت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہو سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے پہلے دن فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا، آپ اس نکتے پر آپ دلائل ضرور دیں۔ عدالت کو بینچ بناتے وقت بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ ایک بات یہ ذہن میں ہوتی ہے کہ معمول کے مقدمات متاثر نہ ہوں۔ موجودہ دور میں روز نمٹائے گیے مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ نو رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا۔ جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں جسٹس مظاہر نقوی کیوں شامل کیے گئے۔ انہیں شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے۔ ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا۔ معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاتر میں آ گئے۔ نوے کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آ سکے۔ آئین، جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں۔ اسمبلی کی مدت ہوتی ہے، ہاؤس کے سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے۔ نوے دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے نوے دن کی مدت کے پندرہ دن بعد تاریخ دی۔ صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے۔ صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی۔ عدالت کے سامنے مسئلہ آٹھ اکتوبر کی تاریخ کا ہے۔ عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی۔ عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں۔

عدالت نے کہا کہ ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے۔ شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا۔ اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست بھی مکمل ہو رہی ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے۔ اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ دیکھ کر آپ کو کہیں گے کہ بااختیار فیصلہ ہے۔ ہر فریق کے ہر نقطے کا فیصلے میں ذکر کریں گے۔ بیس ارب کی اخراجات پر پہلے عدالت کو بتائیں۔ اخراجات کم کرنے کی تجویز دی تھی۔

اٹارنی جنرل نے ستائیس فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی ازسر نو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا۔ چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا۔ اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیوسی میں مداخلت ہوگی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ نے کہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے۔ آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے۔ ہم تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیئے۔ درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں۔ جلد ہی ان معاملات کو سلجھا دیں گے۔ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا۔ تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ متحد تھی کچھ معاملات میں اب بھی ہے۔ عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے، کوئی نہیں دیکھتا۔ اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں۔ جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں بیس سال کی نسبت بہترین ججز ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں۔ جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا۔ آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے۔ قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا۔ میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ میرا بھی دل ہے، میرے بھی جذبات ہیں۔ جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کیا۔ جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا۔ ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں۔ ٹیکس معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان کو استعفیٰ سے روکا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس اقبال حمید الرحمان نے کہا مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ چیف جسٹس کی کمرہ عدالت میں جذبات سے آواز بھر آئی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپنے دلائل جلدی ختم کر دوں گا۔ عرفان قادر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف پورا نہیں سنا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بات مکمل کرنے دیں۔

عرفان قادر نے کہا کہ میں صرف 3 منٹ بات کرتا ہوں۔ روز مجھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے۔ آپ جذباتی ہوسکتے ہیں تو ہم بھی ہوسکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو سنیں گے آپ نے 3 منٹ کا کہا ہے۔ عرفان قادر نے کہا کہ 3 منٹ نہیں بلکہ مختصراً بات مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیس کی بات کریں۔ ادھر ادھر کی باتوں سے میں جذباتی ہوگیا تھا۔  حکومت نے الیکشن کیلئے سیکیورٹی اور پیسے دینے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : فیصلوں میں فرد کی سوچ نہیں نظر آنی چاہیے، اس بینچ کا فیصلہ کون مانے گا؟ مریم اورنگزیب

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں فنانس کے حوالے سے معلومات دینا چاہتا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کو معلومات نہیں قانون کے تحت عدالت کی معاونت کرنی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تمام فریقین کو بات کرنے کا موقع دیں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بات 20 ارب روپے کی ادائیگی کی نہیں ہے۔ حکومت کو 1500 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ شرح سود 13 سے بڑھ گئی ہے۔ شرح سود بڑھنے سے حکومتی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا 20 ارب کی ادائیگی سے حکومت دیوالیہ ہو جائے گی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے الیکشن کیلئے سیکیورٹی اور پیسے دینے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کو معلومات نہیں قانون کے تحت عدالت کی معاونت کرنی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تمام فریقین کو بات کرنے کا موقع دیں گے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بات 20 ارب روپے کی ادائیگی کی نہیں ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے۔ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز میں کتنی رقم موجود ہے۔ اگر بیس ارب خرچ ہوتے ہیں تو خسارہ کتنے فیصد بڑھے گا۔ پندرہ سو ارب خسارے میں بیس ارب سے کتنا اضافہ ہو گا۔ الیکشن اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سپلیمنٹری بجٹ میں 170 ارب کی توقع ہے، اگر پورا جمع ہو گیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فنڈز وزارت خزانہ کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2019 کے رولز پڑھ کر بتائیں فنڈ کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ پبلک فنانشل مینجمنٹ ایکٹ کے تحت رولز کا جائزہ لیں۔ رولز کے مطابق تو کونسلیڈیٹڈ فنڈز اسٹیٹ بینک میں ہوتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں ان کے پاس کتنا پیسہ ہے۔ الیکشن کمیشن حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے۔ کمیشن کہتا ہے کہ فنڈز مل جائیں تو تیس اپریل کو الیکشن کروا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فنڈز میں رقم ہونا اور خرچ کے لیے دستیاب ہونا الگ چیزیں ہیں۔ اسٹیٹ بینک کو رقم اور سونا ریزرو رکھنا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے حکومت کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں تاخیر سے متعلق کیس کی سماعت 3 اپریل ساڑھے گیارے بجے تک ملتوی کردی۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کو بھی طلب کرلیا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top