جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ اب دوبارہ سے انسانوں کی شکل نہ دکھائے

03 مارچ, 2021 15:44

ہیلو ۔ السلام وعلیکم ۔۔۔

میرا نام ہے عائشہ عارف خان اور میں جو بھی کچھ کرنے جارہی ہوں اپنی مرضی سے کرنا چاہتی ہوں۔

اس میں کسی کا زور یا دباؤ نہیں ہے ۔۔۔ یہ سمجھ لیجئے کہ خدا کی زندگی اتنی ہی ہوتی ہے اور مجھے اتنی ہی زندگی بہت سکون والی ملی ، وی آرڈیڈ ۔۔۔۔۔

کب تک لڑیں گے اپنوں سے۔۔ کیس ود ڈرال کردوں۔۔۔ نہیں کرنا ۔۔عائشہ لڑائی کے لئے نہیں بنی ۔۔۔۔ پیار کرتے ہیں عارف سے اسے پریشان تھوڑی نہ کریں گے۔۔۔۔۔

اگر اسے آزادی چاہیئے تو ٹھیک ہے وہ آزاد رہے۔ ۔۔چلو ! اپنی زندگی تو یہی تک ہے۔۔ میں خوش ہوں کہ میں اب اللہ سے ملوں گی۔۔۔۔

ان سے کہوں گی کہ میرے سے غلطی کہاں رہ گئی۔۔۔۔۔ماں باپ بہت اچھے ملے،دوست بھی بہت اچھے ملے ۔۔۔۔بس شاید کہیں کمی رہ گئ۔۔

مجھ میں یا شاید تقدیر میں ۔۔۔۔ میں خوش ہوں سکون سے جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ اب دوبارہ سے انسانوں کی شکل نہ دکھائے۔۔۔

ایک چیز ضرور سیکھ رہی ہوں کہ محبت کرنی ہے تو دو طرفہ کرو،یک طرفہ میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔۔۔۔چلو کچھ محبت تو نکاح کے بعد بھی ادھوری رہتی ہے۔۔۔۔۔

یہ پیاری سی ندی ،پرے کرتے ہیں کہ یہ مجھے اپنے آپ میں سمالے۔۔۔۔۔اور میرے پیٹھ پیچھے جو بھی ہو پلیز زیادہ بکھیڑا کھڑا مت کرنا۔۔

میں ہواؤں کی طرح ہوں بس بہنا چاہتی ہوں اور بہتے رہنا چاہتی ہوں۔۔۔۔

کسی کے لئے نہیں رُکنا میں خوش ہوں آج کے دن جو مجھے جن سوالوں کے جواب چاہئے تھے وہ مل گئے اورمجھے جس کو جو سچائی بتانی تھی وہ بتاچکی ہوں۔۔۔۔۔

بس کافی ہے تھینک یو۔۔۔۔

اور مجھے دعاؤ ں میں یاد کرنا کیا پتا مجھے جنت ملے یا نہ ملے ۔۔۔۔۔۔۔

چلو الوداع !!!!!!

 

ayesha-suicide-case-urdu-blog

 

یہ کسی افسانے کا اقتباس نہیں ہے نہ کوئی من گھڑت فلمی و ڈرامائی کہانی کا کوئی سین۔ یہ ایک ہنستی ہوئی پڑھی لکھی مضبوط لڑکی کی خودکشی سے پہلے کے وہ الفاظ ہے جو احمد آباد کی 23 سالہ لڑکی عائشہ کے ہیں ۔

 

یہ الفاظ ایسےتکلیف دہ ہیں کہ دنیا کے کسی کونے میں بھی سنیں جائیں گے تو ہر باضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیں گے۔ہر باضمیر حساس مرد ہو یا پھر عورت وہ ان الفاظوں کو عائشہ کے لبوں سے سماعت فرمائیں گے تو روح کانپ اٹھیں گی اورآنکھیں بھیک جائیں گی۔

 

میں کراچی میں بیٹھ کر سن رہا ہوں میرے آنکھوں میں بھی آنسو ہے۔ کبھی کبھی الفاظ ختم ہوجاتے ہیں اورجملے بے روح ہوجاتے ہیں آج ہر قسم کے الفاظ اور جملے بے روح اور بے جان ہیں۔

ayesha-suicide-case-urdu-blog

 

کوئی اس واقعہ کو لے کر کہتا ہے کہ سسرال والے ظالم ہے انھیں سزا دو، کوئی کہتا ہے حالات جیسے بھی ہوں عائشہ کو خودکشی نہیں کرنی چاہیے تھی۔

 

 

کوئی کہتا ہے موت مسئلے کا حل نہیں اس سے بڑی بڑی مصیبت لوگ جھیلتے ہیں اور زندگی جیتے ہیں اور یہ تو بس شوہر کا ایک مسئلہ ہے جو عام ہے۔جتنے لوگ اتنی فکریں اور اتنی باتیں ، اور تکرار ہے بے تکی باتوں کی۔ عائشہ کے دل میں جھانک کر دیکھا جاتا تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کرب میں ہے ایسے کرب میں ہے جس سے چھٹکارے کے لئے اس نے موت کو چن لیا۔

 

 

اس بارے میں پڑھیں :  خواتین کا احترام ہم پر فرض ہے

 

کوئی کہہ رہا ہے جہیز کا مسئلہ ہے اور پولیس یہ بھی کہ رہی ہے کہ کسی دوسری لڑکی کا چکر ہے۔ یعنی عائشہ اپنے شوہر سے بے تحاشہ محبت کرتی ہے اور اتنی محبت کرتی ہے کہ اس نے اپنے شوہر کی آخری خواہش بھی پوری کردی کہ ” مرنے سے پہلے ویڈیو بنا کر بھیج دینا ” ۔

 

عائشہ اپنے آخری بیان میں کہتی ہے کہ ” ایک چیز ضرور سیکھ رہی ہوں کہ محبت کرنی ہے تو دو طرفہ کرو،یک طرفہ میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔۔۔۔چلو کچھ محبت تو نکاح کے بعد بھی ادھوری رہتی ہے” یعنی وہ محبت کی شادی کرنے کے بعد بھی محبت سے محروم رہی ۔

عائشہ پر ظلم تو شادی کے چند دنوں بعد ہی شروع ہوگیا تھا مگر وہ سہتی رہی اور پلٹ کر مزید پیار کرتی کہ شاید محبوب کے دل میں میرے لئے کچھ جگہ بن جائے اور وہ مسلسل اسی تگ و دو میں رہی مگر محبت یکطرفہ ہی رہی اور پھر ندی میں بہہ کر امر بھی ہوگئی۔

 

ayesha-suicide-case-urdu-blog

 

مرنے سے پہلے 70 منٹ عائشہ نے اپنی محبت سےبات کی مگر اس کو دھتکارا گیا ، اس پر طنزکیا گیا ، کمزور عائشہ اتنی مضبوط ہوگئی کہ اس نے مرنے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ موت عائشہ کے لئے زندگی سے آسان ہے یعنی جو زندگی وہ گزار رہی تھی وہ موت سے بدتر تھی۔

 

اس کواپنے شوہر سے محبت تھی اور وہ نبھاتی رہی اور اس کا شوہر بہانے بہانے سے اسے نفرت کرتا کہ شاید اسے بھی نفرت ہوجائے مگر وہ محبت کرتی رہی مگر آخر میں سب سے کہہ گئی کہ محبت کرنا تو دو طرفہ کرنا ورنہ نہ کرنا ۔ لوگ اسے جہیز کا مسئلہ کہہ رہے ہیں تو کوئی اسے سسرال والوں کا ظلم کہ رہا ہے کوئی اسے لڑکی کی بے وقوفی سے تعبیر کررہا ہے۔

 

مگر مجھے یہ محبت کی ناکامی لگتی ہے۔ اس واقعہ کو لوگ جو بھی نام دیں مگر یہ محبت کی رسوائی ہے یہ موت عائشہ کی نہیں بلکہ محبت کی موت ہے اور اس موت نے اس خوبصورت احساس پر سوال اٹھادیا ۔

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top