جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

سپریم کورٹ نے ثنااللہ مستی خیل کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی

25 جنوری, 2024 16:50

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے آزاد امیدوار ثنا اللہ خان مستی خیل کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 91 بھکر سے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔

عدالت نے قرار دیا ہے کہ 16 جنوری کا لاہور ہائی کورٹ کا حکم برقرار نہیں رکھا جاسکتا، عدالت نے الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ بحال کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قراردے دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ثنا اللہ مستی خیل کس چیز کے اشتہاری ہیں، کون ساقتل کیا ہے، کون ساخطرناک سیکشن لگایا ہے، کیا اغوابرائے تاوان یا دہشتگردی کردی،بھینس چوری کرنے کا کیس لگایا، اتنے خطرناک آدمی کو ہم بھی الیکشن نہیں لڑنے دیں گے، لگائی گئی دفعات کی ایک ماہ سزا ہے۔ بغیر سنے جج نے درخواست منظور کرلی، ایک آدمی کو ہٹایا جائے تو فرق پڑتا ہے، مخالف امیدواراتنا مقبول ہے توالیکشن جیت جائے گا، ہم لاہور ہائی کورٹ کے حکم سے مطمعن نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے نوٹس بھی نہیں کیا، ایک آدمی کے کاغذات نامزدگی بغیر نوٹس ختم کررہے ہیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ کی جانب سے بھکر کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے91سے آزاد امیدوار ثنا اللہ مستی خیل کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے ثناء اللہ مستی خیل کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے تھے جنہیں لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ کے الیکشن ٹربیونل نے منظور کر لیا تاہم مخالف امیدوار تیمورحسن خان خنانخیل کی رٹ پیٹیشن پر لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے انہیں نوٹس جاری کئے بغیر انتخابات لڑنے کے لئے نااہل قراردے دیا۔

درخواست گزار کی جانب سے ہارون ارشاد جنجوعہ اور شوکت رائوف صدیقی بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکلاء سے کہا کہ جلدی جلدی فیکٹس بتائیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اشتہاری ہیں، سرینڈر نہیں کرتے،ریٹرننگ آفیسر کے پاس بھی جاتے ہیں اور ہائی کورٹ بھی جاتے ہیں، ٹرائل کورٹ میں سرینڈر نہیں کرتے۔

چیف جسٹس نے اسفسار کیا کہ کیا سرینڈر کردیا۔ وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ درخواست گزار پرسیکشن 341راستہ بند کرنے اوردفعہ144کی خلاف ورزی کاکیس ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ خاص جرم نہیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ اس جرم کی سزاتین سال ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ایک ہی دن سارافیصلہ کردیا۔ وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ الیکشن ٹربیونل نے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی تھی۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے نوٹس بھی نہیں کیا، ایک آدمی کے کاغذات نامزدگی بغیر نوٹس ختم کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفار کیا کہ کیا بیلٹ پیپرز چھپ گئے ہیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی عدالت میں موجود ہے، اس پر بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی موجود نہیں۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن حکام کوبلالیں، کیس کی سماعت دوبارہ کریں گے، اس کیس میں کچھ ہوسکتا ہے کہ نہیں، عدالتی وقفہ کے بعد ڈی جی الیکشن کمیشن محمد ارشد اوردیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے روٹین کے کیس روک کر کہا کہ الیکشن کا معاملہ پہلے سنیں گے، چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن حکام سے پوچھا کہ آپ کا کیا مئوقف ہے، اس کیس کوسمجھے ہیں، درخواست گزار الیکشن لڑسکتا ہے کہ نہیں، بیلٹ پیپرزچھپ چکے ہیں کہ نہیں۔ اس پر کمرہ عدالت میں موجود الیکشن کمیشن کے ڈی جی سیاسی امور نے بتایا کہ 20جنوری کو بیلٹ پیپرزکی چھپائی کے حوالہ سے پلیٹ تیار ہوچکی ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ ایک دم کیسے چھاپ دیا، الیکشن کمیشن حکام کا کہنا تھا کہ پلیٹ بن چکی ہے، پروف ریڈنگ ہوچکی ہے اوریہ واٹر مارک پیپر پر بیلٹ پیپرز چھپیں گے اور اب درخواست گزار کا نام شامل کرنا ممکن نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے استفار کیا کہ کب بھیجی پرنٹنگ پریس کو، اس پر ڈی لاء کا کہنا تھا کہ 20جنوری کو، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یا توکہیں کہ ہم آر اوکے حکم پر کرتے ہیں اور ہمیں ہائی کورٹ کے حکم کی پراوہ نہیں، مدعا علیہ کی 14جنوری کو لاہور ہائی کورٹ سے عدم پیروی کی بنیاد پردرخواست خارج ہوجاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ درخواست بحالی کے لئے نوٹس ہوتا ہے، مین کیس میں تونوٹس ہونا چاہیئے، بغیر سنے جج نے درخواست منظور کرلی، ایک آدمی کو ہٹایا جائے تو فرق پڑتا ہے، مخالف امیدواراتنا مقبول ہے توالیکشن جیت جائے گا، ہم لاہور ہائی کورٹ کے حکم سے مطمعن نہیں۔

دوران سماعت وکیل اعتراض کنندہ نے کہا کہ ثنااللہ مستی خیل اشتہاری ہیں، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ثنا اللہ مستی خیل کس چیز کے اشتہاری ہیں، کون ساقتل کیا ہے، کون ساخطرناک سیکشن لگایا ہے، کیا اغوا برائے تاوان یا دہشتگردی کردی، بھینس چوری کرنے کا کیس لگایا، اتنے خطرناک آدمی کو ہم بھی الیکشن نہیں لڑنے دیں گے، لگائی گئی دفعات کی ایک ماہ سزا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ثنااللہ مستی خیل اشتہاری نہیں ضمانت ہو چکی ہے، ثنا اللہ مستی خیل پر ٹائر جلانے کا کیس ہے، ہائیکورٹ کو کیا جلدی تھی جو ٹریبونل کا فیصلہ ایک دم کالعدم کر دیا؟۔

چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ ریٹرننگ آفیسر نے کاغذات نامزدگی مسترد کئے، لاہورہائی کورٹ الیکشن ٹربیونل ملتان بینچ نے کاغذات نامزدگی 5جونری 2024کو منظور کرلیے، مخالف امیدوار نے ہائی کورٹ میں رٹ پیٹیشن دائر کردی جو کہ 14جنوری کو عدم پیروی پر خارج ہو گئی اور یہ آرڈر درخواست گزارکی موجودگی میں جاری ہوا۔ہائی کورٹ میں درخواست گزار نے 16جنوری کوبحالی کی درخواست دی جو منظور ہو گئی اور مدعا علیہ کو نوٹس بھی جاری نہیں کیا گیا اورالیکشن ٹربیونل کا آرڈر معطل کر کے ریٹرننگ آفیسر کاآرڈر بحال کردیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کے خلاف درج مقدمات معمولی نوعیت کے جرائم سے متعلق ہیں، پہلے لاہور ہائی کورٹ نے درخوساست گزار کی عبوری ضمانت 18دسمبر2023کو منظور کی اس کے بعد سیشن کورٹ نے 29دسمبر 2023کو ضمانت قبل ازگرفتاری منظور کی۔ہائی کورٹ کے ججز نے ایک مرتبہ رٹ پیٹیشن خارج کی اور یہ درخواست گزار کی موجودگی میں کیا، درخواست بحال نہیں کرنی چاہیئے تھی۔

چیف جسٹس نے قراردیا کہ 16جنوری کا لاہور ہائی کورٹ کا حکم برقرارنہیں رکھا جاسکتا۔

عدالت نے الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ بحال کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قراردے دیا۔

عدالت نے ثناء اللہ مستی خیل کی درخواست مظور کرتے ہوئے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top