جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

یمن نے بحیرہ احمر اسرائیلی تجارت کیلئے بند کردیا، امریکہ و اتحادیوں کی چیخیں

20 دسمبر, 2023 15:50

جنوبی اسرائیل پر حماس کے تابڑتوڑ حملوں کے بعد غزہ پر اسرائیلی جارحیت شروع ہوئے اب دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مسلسل اسرائیلی بمباری اور زمینی حملوں نے پورے غزہ کو کھنڈر میں بدل کررکھ دیا ہے اور 20 ہزار کے قریب فلسطینیوں کو شہید کیاجا چکا ہے، جن میں سے ایک تہائی سے زیادہ بچے شامل ہیں۔ یہ ہماری دنیا میں ہونے والی نسل کشیوں میں ایک بدترین اضافہ ہے حالانکہ یہودی خود کئی بار نسل کشی کا شکار ہوئےہیں۔اسرائیلی حملے کا اعلانیہ ہدف حماس کوغزہ کی پٹی سے ہی ختم کرنا نہیں تھا بلکہ اسے صفحہ ہستی سے مٹانا تھا۔ د و ماہ بعد حماس کی عرب جوانوں میں مقبولیت بڑھی ہے ، مصر میں امریکہ کی حمایت سے مسلط فوجی آمر آج غزہ کا راستہ کھول دے تو ہزاروں باضمیر اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے حماس کے دوش بدوش کھڑے نظر آئیں گے۔

یمن کا بحیرہ احمر میں اسرائیل کوجواب   

یمن نے غزہ میں اسرائیلی مظالم کا بحیرہ احمر میں عملی جواب دیکر مسلم اور انسانی حمیت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ایک غریب اور کمزور عسکری طاقت رکھنے والے ملک یمن نے امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کی چیخیں نکال دی ہیں۔ امریکہ یمن کے عسکری اقدامات سے نمٹنے کیلئے اپنے یورپی اتحادیوں کو جمع کررہا ہے اور دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں پر شدید دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ یمن کے خلاف طاقت کا استعمال کریں۔

اگر سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات نے مسلم اُمہ کی امنگوں کے خلاف یمن کے خلاف قدم اُٹھایا تو انہیں داخلی انتشار کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عرب ملکوں میں تعینات امریکی سفارت کار ایک سائفر کے ذریعے پہلے ہی واشنگٹن کو بتاچکے ہیں کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے فلسطینیوں کے قتل عام پر عرب نوجوان شدید برہم ہیں۔ عرب حکومتیں جنگ کے ابتدائی دنوں کی طرح حماس کے خلاف بدگوئی سے گریز کررہی ہیں حالانکہ سعودی عرب کی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی خواہش کو حماس نے مٹی میں ملادیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں غزہ میں طویل جنگ سے اسرائیل شدید مشکلات کا شکار

یمن نے امریکی زیرقیادت میری ٹائم ٹاسک فورس کی تشکیل پر اس میں شامل ملکوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ بحیرہ احمر یا یمن کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے سے پرہیز کریں اور واضح کیا ہے کہ یمن صرف اسرائیل جانے والے بحری تجارتی جہازوں کا راستہ روکے گا جبکہ بقیہ ملکوں کیلئے بحری تجارتی راستہ کھلا رہے گا۔ یمنی فوج کے کماندر میجر جنرل محمد العتیفی نے پیر کے روز کہا کہ ہمارے پاس وافر مقدار میں ایسے ہتھیار موجود ہیں جو دشمن کے جنگی جہازوں، آبدوزوں اور طیارہ بردار جہازوں کو ڈبو سکتے ہیں۔

ترکی کی ذمہ داری

یہاں پر ہمیں ترکی سے بھی اسرائیل کے خلاف عملی اقدام کی توقع رکھنی چاہیئے، ترکی، آذربائیجان سے اسرائیل جانے والی تیل پائپ لائن کو کاٹ کر اسرائیل جانے والے 40 فیصد تیل کو بند کرکے تل ابیب کو بحران کا شکار بناسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پیر کے روز امریکی محکمہ جنگ پینٹاگون کے سربراہ لائیڈ آسٹن نے بحرین، کینیڈا، فرانس، اٹلی، نیدر لینڈز، ناروے، سیشلز، اسپین اور برطانیہ سمیت اتحاد کی تشکیل کا اعلان کیا تھا تاکہ یہ اتحاد بحیرہ احمر میں اسرائیلی تجارتی بحری جہازوں کا راستہ روکنے کے خلاف اقدام کرسکے۔ دوسری طرف برطانوی تیل اور گیس کی بڑی کمپنی برٹش پیٹرولیم نے یمنی مسلح افواج کی طرف سے اسرائیل جانے والے بحری جہازوں کا راستہ روکنے کے واقعات میں اضافے کے بعد بحیرہ احمر کے راستے توانائی کی تمام ترسیل روک دی ہے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی شپنگ کمپنیوں نے اپنے بحری جہازوں کو بحیرہ احمر کاراستہ استعمال کرنے سے روک دیاہے۔

جہاں تک اسرائیل کی جانب سے حماس کو ختم کرنے کے ہدف کا تعلق ہے تو عالمی دفاعی مبصرین نے اس پر اوّل دن سے ہی سوال کھڑا کردیا تھا جو اب بھی زیر بحث آتاہے تو اسرائیلی حکام کی بے بسی صاف نظر آتی ہے۔ اسرائیل ابھی تک حماس کو ختم کرنے کا اپنا جنگی ہدف تو حاصل نہیں کرسکا ہے جبکہ اُسکا اقتصادی نقصان ناقابل تلافی ہے ۔ امریکہ تنہا بحیرہ احمر میں مداخلت سے خوفزدہ ہے اسی لئے اپنے اتحادی ملکوں کیساتھ ملکر میری ٹائم ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ امریکہ تنہا ئی کا شکار ہوکر کب تک غاصب اسرائیل کی مدد کرسکے گا؟ کیونکہ اسرائیل کےپاس آپشن ختم ہورہے ہیں اور فلسطینیوں کا خون جواب دینے لگ گیا ہے۔ امریکہ کو صرف عربوں اور مسلمانوں کے غصّے کا سامنا نہیں ہے بلکہ یورپ ، امریکہ اور کینیڈا کی عوام اپنی حکومتوں سے ناراض ہیں۔ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ فلسطینیوں کے قتل عام پر کینیڈا کے وزیراعظم کو اپنی عوام کی نفرت کی وجہ سے ایک رسٹورنٹ سے کھانا کھائے بغیر جانا پڑ گیا ہو۔

اسرائیلی منصوبہ لیک ہوگیا

اسرائیل کی وزارت انٹیلی جنس کی طرف سے تیار کردہ ایک دستاویز اکتوبر کے آخر میں اسرائیلی پریس کو لیک ہوئی جس میں غزہ کے 2.3 ملین فلسطینی باشندوں کی مصر کے جزیرہ نما سینائی میں زبردستی اور مستقل منتقلی کا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ اسی حکمت عملی پر اسرائیلی فورسز عمل کررہی ہیں، غزہ میں بنیادی شہری ڈھانچے کو نشانہ بنا کر اسرائیل اپنے مذموم منصوبے کو لاگو کررہا ہے جو اس پٹی میں زندگی کو سہارا دیتا ہے، جس میں اسکول، یونیورسٹیاں، اسپتال، بیکریاں، دکانیں، کھیتی باڑی اور گرین ہاؤسز، واٹر اسٹیشن، سیوریج سسٹم، پاور اسٹیشن، سولر پینلز اور جنریٹرز شامل ہیں لیکن وہ سب کچھ کرنے کے باوجود غزہ کو فلسطینیوں سے نہیں چھین سکتا۔

تحریر :- محمد رضا سید

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top