جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

پی ٹی آئی کو انتخابی نشان "بلا” واپس مل گیا

10 جنوری, 2024 14:33

پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کی انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا ہے، جس کے بعد پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس مل گیا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور بلے کا نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا ہے۔

پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے درخواست گزاروں، الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی وکلاء کے دلائل سننے کے بعد محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کو انتخابی نشان کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے اور انتخابی نشان کی حقدار ہے۔

 

سماعت کا احوال:

پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشد علی نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی، جس میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض کرنے والے فریقین کے وکلا نے دلائل دیے۔

قبل ازیں پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کے وکلا نے گزشتہ روز اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے۔

جسٹس سید ارشد علی نے پوچھا الیکشن کمیشن نے کون سے سیکشن کے تحت اس پارٹی کے خلاف کارروائی کی؟، وکیل شکایت کندہ نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ سیکشن 215 کے تحت کارروائی کی ہے، جس پر عدالت نے کہا الیکشن کا رزلٹ تو 7 دن کے اندر جمع کیا گیا ہے، وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا الیکشن کمیشن نے دیکھنا تھا کہ سیکشن 208 کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے، سب نے کہا کہ جو بانی پی ٹی آئی کہیں گے وہی ہوگا۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے یہاں تو سب جماعتیں ایک ہی خاندان کے لوگ چلاتے آرہے ہیں، شاید یہ واحد جماعت ہے جو ورکرز کو آگے آنے دے رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفرنے شکایت کندہ کے وکلاء کے اعتراضات پر جواب دیتے ہوئے کہا فریقین کے وکلاء نے عدالتی دائرہ اختیار پر سوالات اٹھائے، دائر اختیار پر اصول کیا ہے وہ بتانا چاہتا ہوں، آرٹیکل 199 ہائیکورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہمارے انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوئے جو ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، اب الیکشن ہو رہے ہیں تو پورے ملک کے لیے ہیں، ہماری پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی اس صوبے سے ہیں۔

جسٹس اعجاز انور نے سوال کیا آپ کی پارٹی کے جنرل سیکرٹری کون ہیں ؟ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ عمر ایوب جنرل سیکرٹری ہیں جن کا تعلق اس صوبے سے ہے، ماڈل ایان علی کے خلاف کیس راولپنڈی میں تھا، اسے کراچی ائیرپورٹ پر گرفتار کیا گیا تھا، اس وقت بھی ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا تھا، ایان علی کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سندھ ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار بنتا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ شکایت کنندہ کی شکایات بد نیتی پر مبنی ہیں، شکایت کنندہ دوبارہ انتخابات نہیں پارٹی ختم کرنا چاہتے ہیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد یا پشاور ہائیکورٹ کہیں بھی چینلج ہو سکتا ہے، اس صوبے میں 2 بار پی ٹی آئی نے حکومت بھی کی ہے، یہ کہنا کہ پارٹی آفس اسلام آباد میں ہے کیس یہاں نہیں ہو سکتا غیر مناسب ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے اپنے دلائل میں کہا کہ کاغذ لہرا کر کہا گیا کہ یہ پارٹی چیئرمین ہے اور یہ نتائج ہیں، یہ غیرقانونی انٹرا پارٹی انتخابات پر کہتے ہیں کہ ہمیں انتخابی نشان دیں جبکہ وکیل شکایت کنندہ کا کہنا تھا سب نے کہا جو بانی پی ٹی آئی کہیں گے وہی ہوگا۔

جسٹس ارشد علی نے کہا الیکشن ایکٹ کی سیکشن 208 کے تحت انٹراپارٹی انتخابات ہوتے ہیں، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209 کی سب سیکشن 2015 کے تحت کیسے پارٹی نشان واپس لیا گیا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیکشن 209 کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات فارم 65 کو صرف دیکھنا نہیں مطمئن ہونا الیکشن کمیشن کا کام ہے، پی ٹی آئی والے الیکشن کمیشن کو ایک ریکارڈ کیپر سمجھتے ہیں، الیکشن کمیشن ایک ریگولیٹری باڈی ہے جو انٹرا پارٹی انتخابات کو دیکھ سکتی ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top