جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

معاشی اور توانائی بحران میں پاک ایران گیس پائپ لائن پر پیشرفت خوش آئند

25 فروری, 2024 14:15

 

دیر آئید، درست آئید، بہت تاخیر کیساتھ مگر بہرحال پاکستان ۔ ایران گیس لائن منصوبے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ نگراں حکومت کا جانے سے پہلے بڑا فیصلہ قابل تعریف مگر آنیوالی حکومت کا اس حوالے سے سیاسی، سفارتی اور قانونی عزم دکھانے کی ضرورت ہے۔

نگراں کابینہ نے گوادر سے 80 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔ یہ معاملہ گزشتہ دہائیوں سے لٹکا ہوا تھا اور اس حوالے سے برادر ملک ایران مایوسی کا شکار تھا، ایران کی جانب سے معاہدے کے تحت اپنی جانب کا کام عرصے سے مکمل ہو چکا ہے مگر پاکستان امریکی پابندیوں اور خدشات کے باعث کام شروع کرنے سے قاصر رہا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ عبوری انتظامیہ نے یہ فیصلہ بین الاقوامی ثالثی عدالت میں جانے کے ایران کے آپشن پر غور کرتے ہوئے کیا ہے، جو پاکستان کے لیے 18 بلین ڈالر کا جرمانہ لے سکتا ہے، کیونکہ ریاست نے اس منصوبے کے لیے خودمختار ضمانت جاری کی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک اپنے مفادات کے تحت کام کرتے ہیں کسی کی خواہش پر نہیں، پاک ایران گیس پائپ لائن ملک کیلئے انتہائی اہم اور خاص طور پر معاشی صورتحال اور توانائی کے بحران کے پیش نظر اہم ترین ہے۔ یہ معاہدہ 2009 میں کیا گیا تھا مگر گزشتہ 14 سالوں میں کسی بھی حکومت نے امریکی خدشات کے خوف سے اس قومی منصوبے پر توجہ نہ دی۔ نگراں انتظامیہ نے اس معاملے پر غیر جانبدار غیر ملکی ماہرین سے مشورہ کیا تھا، جنہوں نے مشورہ دی تھا کہ اگرچہ یہ اسکیم امریکی پابندیوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہے، پاکستان کی جانب سے اس اسکیم کے ساتھ آگے بڑھنے میں اپنی نااہلی کا جواز پیش کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کا حوالہ دینا ایک کمزور دفاع تھا۔ اس لیے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانا افضل تھا۔ آنے والے حکمرانوں کے حوالے سے، مسلم لیگ (ن) نے اپنے تازہ ترین انتخابی منشور میں ایران کے ساتھ "معاشی اور توانائی کے تعلقات کو بڑھانے” کی خواہش کا بھی حوالہ دیا ہے، خاص طور پر تیل اور گیس کے شعبوں کا ذکر کیا ہے۔ اس لیے نگراں انتظامیہ کے فیصلے اور نئے حکمرانوں کی پالیسیوں میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو قدرتی گیس تک باقاعدہ اور سستی رسائی کی ضرورت ہے۔ مقامی سپلائی میں کمی طلب کو پورا نہیں کر سکتی، کیونکہ گھریلو اور صنعتی دونوں شعبوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ بالخصوص سردیوں کے مہینوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ لہذا، ایرانی گیس کی درآمد ایک سمجھدار اقتصادی فیصلہ ہے۔ یہ اس معاملے کی جغرافیائی سیاست ہے جس کی وجہ سے اسکیم کے نفاذ میں طویل تاخیر ہوئی ہے۔ امریکی پابندیوں کے خوف کا خدشہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس حوالے سے قدم اٹھانے سے گریز کیا ہے، عالمی قوانین کے حوالے سے کوئی ٹھوس مشاورت یا حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔

اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ یوکرین جنگ کے بعد امریکہ پابندیوں کے باوجود، بھارت، روس سے تیل کی تجارت کرتا ہے، اسی طرح روس سے کاروبار میں چین، ترکی اور متحدہ عرب امارات کی کمپنیاں تجارت کر رہی ہیں۔ ایک تاویل یہ دی جاسکتی ہے کہ بھارت چونکہ مضبوط معاشی قوت ہے اسکا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا مگر یہ دلیل پھر بھی نہیں کہ کوشش نہ کی جائے۔ دنیا کی صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی ہے، ایسا جواز نہیں ڈھونڈا جا سکتا کہ اسقدر شدید معاشی اور توانائی کے بحران کے باوجود سنجیدہ کوشش نہ کی جائے۔ ریاست کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کیساتھ آگے بڑھنا چاہیئے، آنیوالی حکومت کو قانونی اور سفارتی محاذوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ملک کو اپنے مفاد میں آگے بڑھایا جا سکے۔

یہ پڑھیں :پاک ایران گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری کیلئے توانائی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top