جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی ہے: چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ

09 اکتوبر, 2023 17:30

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔

دورانِ سماعت صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل دیے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ان سے استفسار کیا کہ آئین تو پہلے ہی سپریم کورٹ کو پابند کرتا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنائے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے سوال کا جواب دےدیں کہ سبجیکٹ ٹولاء کو نکال دیں تو رولز بنانے کے اختیار پر کیا فرق پڑے گا، وقت کم ہے جواب جلدی دیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آئین سے آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کے الفاظ ہٹا دیے جائیں تو بھی فرق نہیں پڑے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بس ٹھیک ہے جواب آ گیا اگلے نکتے پر جائیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اگر آرٹیکل 191 میں کہا جاتا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کر سکتی ہے تو ٹھیک تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایک اور سوال ہے کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے اختیار سے تجاوز کر کے قانون بنا سکتی ہے؟ دیکھنا ہو گا آئین کسی بھی ادارے کو آئینی حدود کا پابند کہاں بناتا ہے، آئین سپریم کورٹ کو آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کے لیے بااختیار بناتا ہے بات ختم۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مسٹر زبیری! میں آپ سے دلائل سننا چاہتا ہوں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیا گیا جو اس نے استعمال کیا، کیا اس کے بعد قانون سازی سے سپریم کورٹ کے رولز کو بدلا جا سکتا ہے۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے رولز بنا لیے تو قانون کے ذریعے نہیں بدلا جا سکتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج سماعت مکمل کرنی ہے، میں وکلاء کو سننا چاہتا ہوں، جج صاحبان اپنے فیصلے میں جو لکھنا چاہتے ہیں لکھیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کے لیے پابند کرنے کا مطلب ہے موجودہ قانون کے مطابق رولز بنیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج ہم یہ کیس سن رہے ہیں اور ہمارے ادارے میں کیسز کا بوجھ بڑھ رہا ہے، آج کیس کو ختم کرنا ہے، اپنے دلائل 11 بجے تک ختم کریں، ہم میں سے جس کو جو رائے دینی ہے فیصلے میں لکھ دیں گے، آپ نے تحریری دلائل جمع کرائے تھے؟

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ابھی اپنا تحریری جواب جمع کرایا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے پہلے سے تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیا تھا، اتنے سارے کاغذات ابھی پکڑا دیے، کون سے ملک میں ایسے ہوتا ہے کہ کیس کی سماعت میں تحریری جواب جمع کراؤ؟ ہر بات میں امریکی اور دوسری عدالتوں کا حوالہ دیتے ہیں یہاں بھی بتائیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے وکیل عابد زبیری سے کہا کہ کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تو حوالہ دیں، ہمارا لیول اتنا نہ گرائیں کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کو بطور مثال پیش کر رہے ہیں، یہ تو فیصلہ بھی نہیں ہے۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیوجرسی کی عدالت میں کہا گیا ہے کہ قانون سازی اور رولز بنانے میں فرق ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل عابد زبیری سے کہا کہ آرٹیکل 175 ٹو کو آرٹیکل 191 کے ساتھ ملا کر پڑھیں، آرٹیکل 175 ٹو میں کسی بھی عدالت کے مقدمات سننے کا اختیار بتایا گیا ہے۔

وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے رولز سے متعلق آرٹیکل 142 اے اور اینٹری 55 کو ملا کر پڑھنا ہو گا، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کے اختیار سے متعلق آئینی شق کو تنہا نہیں پڑھا جا سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فل کورٹ یہ مقدمہ سن رہی ہے تاکہ وکلاء سے کچھ سمجھ اور سیکھ سکیں، آئینی شقوں پر دلائل دیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئینی شقوں کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے، آئین کے کچھ آرٹیکل اختیارات اور کچھ ان اختیارات کی حدود واضح کرتے ہیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ یہ تو معزز سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے۔

جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ معزز سپریم کورٹ نہیں ہوتی، معزز ججز ہوتے ہیں، اصطلاحات ٹھیک استعمال کریں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، اگر آئین سازوں کو مکمل اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح لکھ دیتے، کوئی بھی ضابطہ قانون یا آئین سے متصادم ہو گا تو خودہی کالعدم ہو جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں سوال واضح کر دیتا ہوں، جوڈیشل کمیشن، سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز سے متعلق آئین میں لکھا ہے آئینی باڈیز خود قانون بنائیں گی، جب سپریم کورٹ کے ضابطوں سے متعلق آرٹیکل 191 میں لکھا ہے کہ قانون سے بھی بن سکتے ہیں، سوال یہ ہے آئین سازوں نے خود آئین کے ساتھ قانون کا آپشن دیا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے رولز پر پارلیمنٹ نے پابندی لگائی لیکن ہائی کورٹ اور شریعت عدالت کے ضابطوں پر کیوں نہیں لگائی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہائی کورٹس اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنانے کے لیے خود بااختیار ہیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آج بھی سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنا لے تو کوئی اعتراض نہیں اٹھا سکتا، آئین کہتا ہے سپریم جوڈیشل کونسل اپنے قوانین خود بنائے گی جن کی وقعت آئینی ضوابط کے برابر ہو گی۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا وفاقی شریعت عدالت اپنے رولز بنانے کے اختیار میں سپریم کورٹ سے بھی اونچی سطح پر ہے؟

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ اگر اپنے رولز خود بنائے تو وہ تمام رولز سے اونچی سطح پر ہوں گے، اب آئین میں درج سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر دلائل دوں گا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل عابد زبیری سے استفسار کیا کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے، دائرہ اختیار بتاتا ہے؟

وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو رولز بنانے کی پاور دیتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ پاکستان میں 184 تین کا استعمال کیسے ہوا؟ کیا ہیومن رائٹس سیل کا تذکرہ آئین یا سپریم کورٹ رولز میں ہے؟ آرٹیکل 184 تین سے متعلق ماضی کیا رہا؟ یا تو کہہ دیتے کہ 184 تین میں ہیومن رائٹس سیل بن سکتا تھا، اس بات پر تو آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں، اس سے پہلے کہ دنیا مجھ پر انگلی اٹھائے میں خود اپنے اوپر انگلی اٹھا رہا ہوں، آپ یہ تو کہہ دیں کہ سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے غلطی کی تو پارلیمنٹ اسے درست کر سکتی ہے یا نہیں؟ نیو جرسی نہ جائیں، پاکستان کی ہی مثال دے دیں، سپریم کورٹ غلطی کر دے تو کیا پارلیمنٹ اسے درست کر سکتی ہے؟

چیف جسٹس نے عابد زبیری سے سوال کیا کہ آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی نہیں کر رہے؟

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نہیں میں سپریم کورٹ بار کی نمائندگی کر رہا ہوں، آپ کی رائے سن چکا ہوں، ابھی آرٹیکل 184 تین پر آ رہا تھا، میں آپ سے متفق ہوں کہ آرٹیکل 184 تین کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس ویسے بھی اختیار ہے کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھا یا کم کر سکتی ہے، کیا پارلیمنٹ بنیادی حقوق سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس کیس میں اچھے برے یا صحیح غلط کا سوال نہیں، اختیار کا سوال ہے، یہ بتائیں قانون جتنا بھی اچھا ہو، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے یا نہیں۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ انصاف تک رسائی کے حق کی سپریم کورٹ خلاف ورزی کر رہی ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی؟ آپ اس کیس کے قابلِ سماعت ہونے پر دلیل نہیں دے سکے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سے زیادہ بڑا مسئلہ جبری گمشدگیوں کا ہے، اگر چیف جسٹس یہ کیس پہلے مقرر کر رہے ہیں اور جبری گمشدگیوں سے متعلق نہیں تو پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی؟

چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ ماضی میں آرٹیکل 184 تین کا استعمال صحیح ہوا یا غلط؟ میرے سوال کا جواب دیں بطور سپریم کورٹ بار آپ کی کیا رائے ہے؟ اگر مگر نہیں، سیدھا جواب دیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 184 تین کا غلط استعمال ہوا اور اس کے خلاف اپیل ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 184 تین کا دائرہ اختیار نہ پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے نہ ہی سپریم کورٹ، پھر ہم یہ کیس کیوں سن رہے ہیں؟ سپریم کورٹ مقدمات میں آرٹیکل 184 تین کا دائرہ بڑھائے تو ٹھیک اور پارلیمنٹ بڑھائے تو غلط، اگر انکم ٹیکس آرڈیننس یا فیملی رائٹس میں ترمیم ہو تو کیا براہِ راست سپریم کورٹ میں درخواست آ سکتی ہے؟

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ بالکل آ سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کا جواب نوٹ کر رہا ہوں کہ بنیادی حقوق کے علاوہ بھی قانون سازی براہِ راست سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کے لیے دروازہ کھول دیں کہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی، ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سرا نہیں ہو گا، قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون سازی درست ہے تو ٹھیک ورنہ کالعدم قرار دے دیں، آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ماضی کو دیکھیں، ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیتا ہے، امریکا میں یہ سب نہیں ہوتا، ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے، سپریم کورٹ بار خود تو درخواست لے کر نہیں آئی۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ بار نے جو درخواستیں کیں وہ تو مقرر نہیں ہو رہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر آپ اس کیس کو ختم کریں تو باقی مقرر ہوں، کل کی باتیں نہ کریں آج کی صورتِ حال بتائیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ ایکٹ میں آئین کی کون سی شق کا حوالہ دیا گیا ہے؟ ایسے تو سادہ اکثریت سے قانون سازی کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین میں سادہ اکثریت سے بالواسطہ ترمیم کر کے دروازہ کھولا جا رہا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آرٹیکل 184 تین کا اختیار آئین میں رہ کر استعمال کیا گیا ہوتا تو ایسی قانون سازی نہ ہوتی، آپ مدعی ہیں نہ مدعا علیہ تو پھر اس ایکٹ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟

جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ آرٹیکل 184 تین میں اپیل سے اصل دائرہ اختیار کے کیس کی دوبارہ سماعت کا حق کیسے دے دیا گیا؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پورا ہونا چاہیے لیکن فردِ واحد آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تو اسے کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے سے متعلق دلائل دیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم بھی مانتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کو ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں ہے، بس اب دلائل ختم کریں، یہ تاثر مت دیں کہ آپ یہ کیس ختم کرنا نہیں چاہتے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اگر کسی نے 188 کے تحت نظرِ ثانی ایک بار دائر کر دی تو وہ اپیل نہیں کر سکتا، ایکٹ کے تحت نظرِ ثانی کے خلاف تو اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔

چیف جسٹس نے عابد زبیری سے کہا کہ بوجھ سپریم کورٹ پر پڑے گا تو گھبراہٹ آپ کو کیوں ہو رہی ہے؟ آپ کے دلائل مکمل ہو گئے، اگلے فریق کو 20 منٹ سنیں گے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کےخلاف درخواستوں پر سماعت وقفے کے بعد شروع ہوئی تودرخواست گزار عامر صادق کے وکیل عدنان خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو بذریعہ ایکٹ سپریم کورٹ رولز بنانے کا اختیار نہیں، آئین سازوں نے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے ضابطوں میں رد و بدل کا اختیار دانستہ نہیں دیا، چیف جسٹس کے آفس کو پارلیمنٹ نے بےکار کر دیا، سپریم کورٹ 2 بنیادوں پر کھڑی ہے، ایک چیف جسٹس اور دوسری باقی ججز۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسے تو فل کورٹ بلانے کی کیا ضرورت ہے صرف چیف جسٹس کیس سن لیتے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیے گئے وہ آئین میں درج ہیں، چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سوا کہاں تنہا اختیارات دیے گئے۔

وکیل عدنان خان نے کہا کہ آئین کہتا ہے چیف جسٹس خود بغیر کسی مشاورت کے بینچز بنا سکتا ہے، اگر 2 ججز کہتے ہیں اگلے ہفتے سےبینچ نہیں بنانے صرف چیمبر ورک کرنا ہے تو چیف جسٹس کے اختیارات بےکار ہوں گے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ ابھی تک مستقبل کا بتا رہے ہیں، ابھی اس قانون سے آپ کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟ آپ ہمارے سامنے اپنے کون سے بنیادی حق کا دفاع کر رہے ہیں؟

وکیل عدنان خان نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں، اس سے تمام بنیادی حق متاثر ہوتے ہیں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے انصاف تک رسائی کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہوئی، ایکٹ میں فوری مقرر مقدمات کا طریقہ کار دے کر سپریم کورٹ کی تضحیک کی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم پہلے بھی کیس مقرر کرنے کے لیے اپنا دماغ استعمال کیا کرتے تھے، میں نے تو پہلے ہی کیس مینجمنٹ کمیٹی کو کیسز کے تقرر کا اختیار دیا ہے، کیا میں نے کیس مینجمنٹ کمیٹی بنا کر آئینی خلاف ورزی کی؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے حراستی مراکز سے متعلق فیصلے کےخلاف اپیل 4 سال سے زیر التوا ہے، اہم کیسز کے مقرر نہ ہونے پر قانون سازی کیوں نہیں ہوسکتی؟

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر میں حراستی مراکز سے متعلق کیس مقرر نہیں کرتا تو آپ کے پاس کیا حل ہو گا؟

وکیل عدنان خان نے کہا کہ مشاورت اچھی چیز ہے، چیف جسٹس اپنے ساتھیوں میں کسی سے بھی مشاورت ک رسکتےہیں، اس قانون میں کہیں مشاورت کا درج نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ایسا قانون یا شرعی قانون ہے کہ اپیل کا کوئی حق نہیں ہے؟ قانون یا شریعت کی رومیں کہاں درج ہے کہ قاضی کا فیصلہ آخری ہو گا؟ کوئی حوالہ دے دیجیے۔

درخواست گزار محمد شاہد رانا ایڈووکیٹ نے سوال کیا کہ اگر 15 ججز فیصلہ کریں گے تو اپیل کس کے پاس جائے گی؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 15 ججز فیصلہ کریں گے تو اپیل یہاں نہیں ہو گی، اللّٰہ کے پاس جائے گی۔

وکیل شاہد رانا نے کہا کہ ہائی کورٹ میں فیصلہ دینے والے جج سے انٹرا کورٹ اپیل میں مختلف ججز کیس سنتے ہیں، سپریم کورٹ میں اپیلیں آرٹیکل 185 کے تحت ہوتی ہیں، آرٹیکل 185 کے تحت اپیل اب آرٹیکل 184 میں تونہیں ہوسکتی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم آپ کو اس بات کا جواب فیصلے میں دے دیں گے، یہ معاملہ پہلے کبھی کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ کیا پتہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہو، سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو قانون سازی سے اسے درست نہیں کیا جاسکتا، یہاں بار کے انتخابات جیتنا مشکل ہے وہاں دو تہائی اکثریت کے لیے نمبر پورے کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184 تین کے دائرہ کار میں کیے گئے تمام فیصلے درست ہیں؟

وکیل شاہد رانا نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184 تین کے تحت مفاد عامہ کے کیس سننے چاہئیں، مفاد خاص کے نہیں۔

درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کے لیے وقت نہ دینے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ پہلے ہمیں سنیں گے پھر اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہمیں نہ سننا ناانصافی ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کہاں لکھا ہے حکمنامے میں کہ آپ کو ابھی سننا ہے؟

امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ اپنا سلوک دیکھیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی بات کرنے کی تمیز بھی ہوتی ہے، پچھلی سماعت کا تمام ججز کے دستخط کے ساتھ حکمنامہ جاری ہوا، حکمنامے میں درج ہے امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہو چکے اور وہ مزید دلائل دینا نہیں چاہتے۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ میرے ساتھی خواجہ طارق رحیم آپ کے رویے کی وجہ سے آج عدالت نہیں آئے، خواجہ طارق رحیم نے آپ کو پیغام پہنچانے کا کہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں ورنہ میں کچھ ایشو کروں، جس کے بعد امتیاز صدیقی نشست پر بیٹھ گئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھ سے پہلے مسلم لیگ ق کے وکیل دلائل دینا چاہتے ہیں۔

مسلم لیگ ق کے وکیل زاہد فخرالدین ابراہیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کا اختیار آرٹیکل 142 سے نکلتا ہے، آئین پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کے لیے کھلا اختیار بھی نہیں دیتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سوالات کے جوابات بعد میں دیجیے گا پہلے اپنی دلیل مکمل کریں۔

وکیل زاہد ابراہیم نےکہا کہ اس عدالت نے جسٹس انوربھنڈر کیس میں آرٹیکل 188 سے متعلق کہا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کم نہیں کیے جاسکتے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسی فیصلے کے اگلے حصے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ رولز کو بہتری کے لیے پارلیمنٹ بدل بھی نہیں سکتی، ایک جملے پر انحصار نہ کریں، پورا فیصلہ پڑھیں، جن فیصلوں کا حوالہ آپ دے رہے ہیں وہ ان ضوابط سے متعلق ہیں جن کا اختیار پہلے سے قانون دیتا ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ فل کورٹ کو اپنی رائے بتا دیں۔

وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ یہ کیس خود تسلیم کر رہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیسے ممکن ہے کہ ’سبجیکٹ ٹو لاء‘ لکھ کر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز پر قانون سازی کا اختیار دے دیا گیا ہو؟ آرٹیکل 188 اور آرٹیکل 191 میں فرق ہے۔

وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں سپریم کورٹ کو اپنے رولز بنانے کا اختیار نہیں صرف رولز بنانے کا حق تسلیم کرتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ این آر او فیصلے میں کہا گیا کہ آئینی بنیاد پر بنائے گئے رولز کا درجہ بلند ہوگا، سپریم کورٹ کے رولز کو اونچے درجے پر رکھنے کا کیا مطلب ہے؟

وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2010 کے فیصلے میں اپنے رولز کو اعلیٰ درجے پر قرار دیا، کیا سپریم کورٹ نے اپنے رولز کو قانون سے بالا قرار دی اتھا؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر میں آپ سے سوال ایسا پوچھوں جو مجھے فیصلہ کرنا ہے تو سوال کا کیا فائدہ؟

وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ میں اپیل کے حق سے متعلق دلائل دینا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ زاہد صاحب، آپ یہ تمام سوالات جمع کر لیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے آئین میں بلاواسطہ ترمیم کی گئی، کیا آئین پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کی اجازت دیتا ہے، جس طرح آپ اسے اینٹری58 سے لنک کر رہے ہیں تو آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی اختیار بہت وسیع ہونا چاہیے، آپ 1956ء کا آئین پڑھیں۔

وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ پارلیمنٹ کو آرٹیکل 142 ٹو کے تحت فیڈرل لیجسلیٹیو اینٹریز پر قانون سازی کا اختیار ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون سازی کے اختیار کے تحت آرٹیکل191 کہتا ہے سپریم کورٹ رولز قانون سے بدلے جاسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل زاہد ابراہیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ آپ سب کے دلائل سے متفق ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بینچ میں بیٹھے جج کو حق حاصل ہے کہ وہ سوال کرے،پارلیمنٹ کو موجودہ قانون کا دائرہ بڑھانے کا اختیار ہے، اپیل کا حق دے کر قانون کا دائرہ بڑھایا کیسے گیا؟ قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں کچھ شامل کیسے کیا جاسکتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ دائرہ اختیار بڑھانے کو آرٹیکل 175شق 4 کے ساتھ ملا کر پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ بار بار کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے پاس شروع سے رولز سے متعلق قانون سازی کا اختیار تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ اپیل تو ایک ضابطے کا معاملہ ہے یا کسی کا بنیادی حق ہے؟

وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ اپیل بنیادی حق ہے، اسلام بھی پابند کرتا ہے اپیل کا حق ملنا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کوئی دلائل تو دیں جن کو ہم درج کر لیں۔

جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ دائرہ اختیار کو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے بڑھایا جاسکتا ہے یا اس کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے؟ کیا آئین کی دیگر شقوں کو آئینی ترمیم کے بغیر بدلا جاسکتا ہے؟ جس طریقے کار سے آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے اسی طرح کریں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر کل پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے 184 تھری کو ختم کر دے تو کیا ہو گا، مسلسل سوالات سن رہا ہوں کوئی دلیل تو دی ہی نہیں گئی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس قانون کے تحت تو پارلیمنٹ ماسٹر آف دی روسٹر ہے، یہ ایکٹ عدلیہ کی آزادی سے براہ راست متصادم ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا ماسٹر آف دی روسٹر خود بول سکتا ہے؟ روایت کے مطابق کیسز کی لسٹ ہر جمعرات چیف جسٹس کے پاس جاتی تھی، چیف جسٹس فیصلہ کرتا تھا کون سا کیس کس جج کے سامنے مقرر کرنا ہے، سپریم کورٹ رولز 1980 کہتے ہیں کیسز کا تقرر رجسٹرار کی ذمے داری ہے، ماسٹر آف دی روسٹر کے طور پر مجھے اختیار دے دیں پھر۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماسٹرز کی روایت دنیا سے ختم ہو چکی ہے اب ہمیں بھی اس سے نکلنا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ہمیشہ میری پاورز کو کم کرنے کی بات کرتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی کی تضحیک نہیں کرنا چاہتا لیکن ماسٹرز بدلتے رہتے ہیں، ضروری نہیں جو ایک چیف جسٹس کو پسند نہیں آ رہا وہ دوسرے کو بھی نہیں آئے گا۔

وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ چاہتا ہوں کہ ججز اس قانون کو عدلیہ کی آزادی پر حملے کے طور پر نہ دیکھیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایکٹ سے متفق ہونے کا واحد طریقے کار یہی ہے اپنی آنکھیں بند کر لوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت سے یہ پیغام نہیں چاہیے کہ آئین و قانون اس بات پر منحصر ہے کہ چیف جسٹس کون ہے، اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو یہ آئین و قانون کی تباہی ہو گا، یہ نہیں ہو سکتا کہ فلاں چیف جسٹس اس تاریخ کو ریٹائر ہو گا تو قانون یا آئین بدل جائے گا، میں آئین کا غلام ہوں، یہ نہیں ہو سکتا کہ آج آئین یہ ہے کل کچھ اور ہو گا، روسٹرم پر زیادہ وکلاء جمع نہ ہوں، صرف 2 وکلاء موجود رہیں، اس درخواست پر اوپن کورٹ میں سماعت کا آرڈر دیا ہے، اگر کوئی ایسی چیز آتی ہے جو حساس ہو تو پھر دونوں وکلاء کی مشاورت سے ان کیمرا دلائل سنیں گے۔

مسلم لیگ ن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ پاکستان بار کونسل 10 سال سے چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے، بینچ بنانے اور مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے کا اختیار چیف جسٹس کو حاصل ہونا آئین میں نہیں لکھا، 60 کی دہائی سے چیف جسٹس کے ماسٹر آف روسٹر کے اختیار کو کم کر کے سپریم کورٹ کے اختیارات کو بڑھایا جاتا رہا، جنوری 2018ء میں بھارتی سپریم کورٹ کے چار ججز اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم 1947ء میں آزاد ہو چکے ہیں، دیکھتے ہیں بھارتی سپریم کورٹ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کرنے کے خلاف کیس پر کیا فیصلہ دیتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ 3 ججز کو احکامات جاری کر رہا ہے، پارلیمنٹ پوری سپریم کورٹ کو ڈکٹیٹ کرے گا تو کیا ہو گا؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ قانون سازی کو احکامات کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہاں ساری وہ باتیں ہو رہی ہیں جو ابھی ہوا ہی نہیں، یہ بات نہیں ہے کہ ہم اپنی کشتی نہیں چلا سکتے ہیں، پہلے ایکٹ پائلٹ چلا رہا تھا اب معاون پائلٹس بھی آگئے، ہم اپنے سائے سے کیوں خوفزدہ ہیں؟ ابھی تک تو کچھ نہیں ہوا، سب مفروضوں پر ہو رہا ہے، سوال صرف پارلیمنٹ کے اختیارات کا ہے، قانون بنایا جا سکتا تھا یا نہیں یہ بتائیں، صرف یہ جواب دے دیں جو سوال اعجاز صاحب نے پہلے دن پوچھا تھا۔

وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اب پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیارات پر دلائل دوں گا۔

سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تومسلم لیگ ن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ماسٹر آف روسٹر پارلیمنٹ نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ قانون بنانے کا اختیار وفاقی حکومت کو ہے تو پھر ماسٹر آف روسٹر تو وہی ہیں، کل کو پارلیمنٹ اختیارات کو کسی اور طرح بھی بدل سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کل کو جب پارلیمنٹ قانون سازی کرے گی تو اس کو کالعدم قرار دے دیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ عوام کے منتخب نمائندوں سے بنی ہے، عوام کے منتخب نمائندوں نے قانون بنایا تو ہم عوام کے امین کے طور پر کیسے ان پر سوال اٹھا سکتے ہیں۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ سے متعلق نئی قانون سازی کرے تو کیا وہ انٹری 55 کے مطابق نہیں ہوگی؟

واضح رہے گزشتہ 2 سماعتوں میں 5 درخواست گزاروں کے وکلاء کے دلائل مکمل ہو چکے، آج باقی درخواست گزاروں کے وکلاء، اٹارنی جنرل، مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے وکلاء دلائل دیں گے۔

تمام فریقین اپنے تحریری جوابات اور دلائل عدالت میں جمع کرا چکے ہیں، وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کی صورت میں سماعت آج مکمل ہونے کا امکان ہے۔

چیف جسٹس نے بھی 9 اکتوبر کو کیس مکمل کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔

 یہ پڑھیں :سپریم کورٹ نے صرف ایک ہفتے میں 224 مقدمات نمٹا دیئے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top