جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

پچکاری والے سانپ اور کراچی کی سڑکیں

23 جنوری, 2021 16:12

یقین ہے آپ مضمون کا عنوان پڑھ کر سکتے میں آگئے ہونگے کہ کراچی شہر جنگل تو نہیں تو اس میں سانپ کہاں سے آگئے ،؟پھر آپ نے سوچا ہوگا کہ شاید اس میں شایدچڑیا گھر کی بات ہو؟ لیکن وہ تو ایک ہی جگہ پر قید ہے سڑکوں پر تو نہیں ۔

تو پھر شاید سپیروں کے ہاٹ پاٹ نما ڈبوں والے سانپوں کی بات ہو رہی ہو ،لیکن وہ تو سپیروں کے بین بجانے پر ڈبے سے نکل کر ناچتے ہیں اور پھر ڈبے میں جاکرچھپ جاتے ہیں۔ تو پھر ایسا تو نہیں شاید آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ شاید لکھنا والا آستین کے سانپ کی بات کررہا ہو ۔لیکن یہ والے سانپ رینگتے تو نہیں وہ تو خاموشی سے ہمارے آس پا س اللہ میاں کی گائے بن کرموجود ہوتے ہیں اورپھر اچانک سے ڈس لیتے ہیں ۔

بحرحال جلدی بتادوں کہ یہ سانپ اصلی والا نہیں ،تو ہر گز نہ ڈرئیے اور بلاخوف شہر میں گھومئے ، بس نظریں گھوماتے رہیے تاکہ ان سانپوں کے اڑتے زہر سے بچا جاسکیں۔پھر ہوگیا ذکر سانپ ، چلئے میں بتاتا ہوں کہ کن سانپوں کی بات ہورہی ہے اور کس زہر کی بات ہورہی ہے۔

Playing Holi by spitting Paan and Gutka - YouTube

اگر کہ آپ شہر کراچی کے باسی ہیں اور شہر کی سڑکوں پر گھومتے ہیں تو یقیناً ان سانپوں کو دیکھا ہوگا بلکہ ہوسکتا ہے کہ زہر کی چند چھینٹے بھی آئی ہونگی۔

اچھا اصلی سانپ اور اس سانپ میں ایک بڑا زہریلا فرق ہے ، وہ یہ کہ اس اصلی سانپ کا زہر اس کے جسم کے اندر ہوتا ہے پر اسے نقصان نہیں پہنچتا البتہ اگر وہ کسی کو کاٹ لیں تو موت کا سامان ہوجاتا ہے، لیکن کراچی والے سانپ کا کمال یہ ہے کہ زہر وہ خود کھاتے ہیں اور آہستہ آہستہ خود اپنے لئے موت کا سامان پیدا کرتے ہیں۔آپ پھر حیرت میں مبتلا ہوگئے ہونگے۔ اچھا تھوڑی دیر رکئے آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ آخر یہ کن سانپوں کا ذکر ہورہا ہے۔

 

یہ سانپ کراچی کی سڑکو ں پر جگہ جگہ رینگتے ہیں پر یہ خود نہیں رینگتے بلکہ مختلف طریقوں سے رینگتے ہیں کہیں بائیک کی مدد سے، کہیں گاڑی کی مدد سے تو کہیںبس میں، ہاں ہاں ایسا ہی ہے پھر حیران ہوگئے نہ آپ۔ جی اور رینگتے رینگتے اچانک سے یہ زہر ہوا میں چھوڑدیتے ہیں، بائیک پر رینگتاسانپ اچانک سے ہیلمٹ اٹھا کر زہر ہوا میں چھوڑتا ہے اور گاڑی والا سانپ اچانک سے شیشے سے منہ نکال کر زہر چھوڑتا ہے یا پھر گاڑی کا دروازہ کھول کر۔

اس بارے میں جانئے :  کراچی کاقصور کیا ہے ؟

 

آپ بہت حیران وپریشان ہونگے اور تھوڑے خوفزدہ بھی ہونگے کہ آخر یہ کون ہے جو اس طرح زہر چھوڑتے پھر رہیں ہیں۔ ویسے تو یہ زہر چھوڑنے والے پورے ملک میں موجود ہیں لیکن کراچی میں ان کی بڑی تعداد موجود ہے۔ جی جناب ایسا کون سا زہر ہے جو دوسروں کے لئے نہیں بلکہ خود کے لئے خطرناک ہے وہ ہے گٹکا، ماوا، پان اور چھالیہ ۔ جی جی یہ تمام چیزیں سلو پوائزن ہی تو ہیں جو آہستہ آہستہ مختلف بیماریوں میں کھانے والوں کو مبتلا کردیتی ہیں اور پھر وہ خطرناک بیماریاں ان لوگوں کو موت کے منہ میں لے جاتی ہیں۔

 

Mumbai Crime Watch: Man pays 'heavy fine' for paan spit, parts with Rs  84,000 in gold

 

اب بات تھوڑی سنجیدہ ہوچکی ہےپراس موضوع کو اٹھانے کی دو وجوہات ہیں ۔ ایک تو بالائی پیراگراف میں رقم کر چکا ہوں اور اس موضوع کو لکھنے کی دوسری وجہ اس زہر کا ڈرون حملہ ہے۔ ہاں ڈرون حملہ ۔ ہوتا کیا ہے زہر کھانے ، چبانے اور منہ میںگھمانے والے اچانک سے فضا میں اس زہر ی مواد کا ڈرون حملہ کردیتے ہیں۔

 

ڈرون حملہ کرنے والا تو اپنی جہالت سے لا علم ہوتا ہے ،اس کو تو بس اپنی جہالت تھوکنی ہوتی ہے تو وہ اکثر بغیر دیکھے ہی چلتی گاڑی اور بائیک سے زہری میزائل چھوڑتا ہے جو ہو ا کے دباؤ کی وجہ سے پیچھے آنے والوں پر چھڑکاؤ کی شکل میں جا چمٹتا ہے۔

اب زہر ی ڈرون چھوڑنے والا اپنی دانش میں تو درست طریقے سے تھوک گیا لیکن اس حملے کا نشانہ بننے والا معصوم اس حملے کے نتیجے میں جھلس جاتا ہے۔ اکثر اوقات تو منہ تک چھڑکاؤ ہوتا ہے لیکن اگر ڈرون حملہ بڑا ہو تو یہ منہ کے چھٹرکاؤ کے ساتھ ساتھ لباس کو بھی رنگین بنا دیتا ہے اوراچانک حملے کا شکار ہونے والا بوکھلا جاتا ہے اور اسی سوچ میں حملہ آور فرار ہوجاتا ہے۔

 

یہ پڑھیں : تین ہٹی سے گرومندر تک

 

بس ایک چھوٹی سے التجا و درخواست وگزارش و فریاد بحضور زہریلے ڈرون چھوڑنے والے افراد ، بھائیوں کوشش کیا کرو کہ چلتی کاروں اور بائیکس سے یہ حرکت نہ کیا کرو اب تم تو یہ کارنامہ انجام دیں دیتےہو لیکن شکار ہونے والا شخص مشکل میں آجاتا ہے ،ہوسکتا ہے وہ انٹرویو یا جاب پر جارہا ہو ، یا پھر منگیتر سے ملنےیا پھرکسی تاریخ پر، بحرحال سنو ڈرون حملہ آوروں جب زہر منہ میں گھوم گھوم کر اپنا مزہ ختم کردیں اور آپ اسے پھینکنے کا ارادہ کرلیں تو اپنی سواریوں کو سائیڈ پر لگا کر یہ عمل انجام دو تاکہ دل سے نکلی بددعا اور غصہ سے نکلی انواع و اقسام کی گالیوں سے بچ سکو۔

 

تحریر : مدثر مہدی

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top