جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

تعلیم کا مقصدمشین نہیں انسان بنانا ہے

28 جنوری, 2021 14:00

ہمارے ملک میں مختلف قسم کے تعلیمی نظام نافذہیں۔ جس میں چند ایک کے علاوہ تقریبا تما م ہی ناکارہ ہوچکیں ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ  پرائمری کلاس میں پڑھا تھا کہ تعلیم کا مقصد انسان کی تربیت کرکے اس کو اچھا شہر ی اور معاشرے کے لئے سود مند بنانا ہے۔

 

تعلیم کا مقصد اخلا قی تربیت اور شعور پروان چڑھانا ہے۔ اب آپ خود بتائیں کہ آج کا تعلیمی نظام بچوں میں شعور و تخلیقی ذہن بنانے پر زور دے رہا ہے یا پھربچوں کو روبوٹ اور مشین بنارہا ہے۔ہمارا تعلیمی نظام تباہی کے دہانے پر ہے مگر کوئی اس بابت سوچ نہیں رہا بس مقصد کمرشلزم ہے ۔

 

Online classes and chaos — A failure of the education system in Pakistan? - The Meraki

 

آج کے تعلیمی نظام میں تخلیق مرگئی ہے۔یہ نظام بچوں کو رٹالگانے پر لگا دیتا ہے اور مشاہدہ کرنے سے روک دیتا ہے۔ یہ نظام نمبر زیادہ لینے پر زور دیتا ہے مگر زیادہ سوال کرنے پر جھڑک دیتا ہے ۔ہم نے تعلیم حاصل کرنے کو صرف اور صرف پیسے کمانے کااور نوکری کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھ لیا ہے۔

 

جب کہ تعلیم حاصل کرنا اور پیسہ کمانا بلکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ تعلیم کا مقصد شخصیت کی تعمیراور شعور و فہم کی بلندی ہے اور پیسہ کمانے کا مقصدضروریات اور خواہشات زندگی کوپورا کرنا ہے۔

 

یہ پڑھیں : سکون حاصل کرنے کے 9 طریقے

 

ہم تعلیم کو ڈگری کی صورت میں دیکھتے ہیں اور ایسی ڈگری جو مستقبل میں اچھے پیسے کمانے کی حیثیت رکھتی ہو۔ اگر تعلیم کا مقصد ڈگری کا حصول ہوگا تو تعلیم کا حقیقی مقصد خود با خود فوت ہوجاتا ہے۔ہنر سے بھی پیسے کمائے جاسکتے ہیں ،پیسے کمانے کے لئے کسی ہنر یا فن کا ہونا بھی کافی ہے ۔

 

معاشرے کو ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، بینکر اور بیورکریٹ آفیسر کے علاوہ ٹیلر، پلمبر، ہیئر ڈریسر، الیکٹریشن بھی چاہیئےہوتا ہے ۔ ویسے بھی ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ روزگار کے مواقع بہت کم ہیں جس کی وجہ سے ڈگری ہولڈر بچے در بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔ مگر ہنر مند انسان جاب کی تلاش میں نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہنر ہی اس کا کاروبار ہے ، جاب ہے اور اس کا روزگار ہے۔

 

The Education problem: an analysis of Pakistan Education system

 

ہمارے تعلیمی نظام میں تربیت نہیں کی جاتی ، ہنر نہیں سکھایا جاتا بلکہ ڈگری کے لئے رٹا لگوایا جاتا ہے تاکہ روبوٹ تیار ہوں اور ان کو کارڈ پہنا کر مشینی کام تھمادیا جائے۔ ایسا کام جس میں ایک ہی فارمیٹ میں گھومتے رہنا ہےاور تخلیق کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔

 

ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ تعلیمی نظام میں تبدیلی ہو اور اخلاقی تربیت کا سلسلہ شروع کیا جائے اس کے لئے بہترین مثال جاپان کے اسکولوں کی ہے جس میں تین سال تک بچوں کو اخلاقی تربیت سکھاکر ان کی کردار سازی کی جاتی ہےاور چوتھی کلاس تک کوئی امتحان نہیں لیا جاتا تاکہ وہ تخلیقی رہیں اور کسی بھی قسم کے دباؤ کا شکار نہ ہوں۔

 

یہ پڑھیں :  خواتین کا احترام ہم پر فرض ہے

 

حکومت اور نجی اداروں سمیت فلاحی اداروں کو اس بات پر دھیان دینا چاہیئے کہ نوجوان کو ہنر کی طرف بھی راغب کرنا چاہیئے اور وہ باعزت روزگار کما سکیں ۔ویسے بھی ہنر ایک دولت ہے اور ہنر مند انسان کی طلب لوگوں کو ہوتی ہیں نہ کہ اس کو نوکری کے لئے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔

 

نوجوانوں کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی فکر اور پسند کے مطابق اپنا کرئیر متعین کریں نہ کہ فیملی کےدباؤ میں آکر وہ فیلڈ چنے جس میں ان کو دلچسپی نہیں ہے ورنہ پوری زندگی افسوس کرتے گزریں گی۔

 

تحریر : مدثر مہدی

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

</p

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top