جمعرات، 19-ستمبر،2024
جمعرات 1446/03/16هـ (19-09-2024م)

سوا پانچ لاکھ آبادی والا ملک مالدیپ آخر انڈیا کو چیلنج کیوں کر رہا ہے ؟

16 جنوری, 2024 16:59

ہندوستان کا اپنے پڑوسی ملک مالدیپ سے رشتہ مزید کشیدہ ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ اب مالدیپ نے انڈیا کو سرکاری طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ وہ 15 مارچ تک جزیرے سے اپنے فوجی واپس بلا لے، جن کی تعداد تقریباً 80 ہے۔

یہ مطالبہ اتوار کو مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں فریقوں کے درمیان اعلیٰ سطحی کور گروپ کے پہلے اجلاس میں کیا گیا۔

انڈیا نے اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران مالدیپ میں انڈین فوجیوں کی موجودگی پر بھی بات چیت ہوئی تاہم فوجیوں کو مالدیپ سے بلانے کی ٹائم لائن کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ مالدیپ سے انڈین فوجیوں کو ہٹانا ملک کے نو منتخب صدر محمد معیزو کی انتخابی مہم کا وعدہ تھا۔ دوسری جانب انڈیا کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے فوجیوں کو شہری مقاصد جیسے ریسکیو اور طبی ہنگامی صورتحال کے لیے مالدیپ میں تعینات کیا تھا۔

انڈیا مالدیپ کا خطے میں ایک دیرینہ ساتھی ہے اور مالدیپ سیاحوں، طبی ہنگامی صورتحال اور خوراک کی فراہمی جیسے معاملات پر کافی حد تک انڈیا پر انحصار کرتا ہے لیکن مالدیپ کی نئی حکومت انڈیا اور اس کے فوجیوں کی موجودگی کو ملک میں انڈیا کے ’غیر ضروری اثر و رسوخ‘ کے طور پر دیکھتی ہے۔

مالدیپ لگ بھگ سوا پانچ لاکھ آبادی والا ایک چھوٹا سا جزیرہ نما ملک ہے جس کا مجموعی رقبہ محض 300 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ ملک تقریباً 1200 چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے اور عمومی طور پر ایک جزیرے سے دوسرے تک پہنچنے کے لیے کشتیوں اور چھوٹے بحری جہازوں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ مالدیپ کے زیادہ تر جزائر غیر آباد ہیں۔

مالدیپ کی معیشت کا زیادہ تر حصہ سیاحت کے شعبے پر ہے اور سیاحتی مقاصد کو ہی ذہن میں رکھتے ہوئے اس مُلک کے متعدد جزائر کو تیار کیا گیا ہے۔

سنہ 2008 میں طویل عرصے تک برسرِ اقتدار رہنے والے صدر مامون عبدالقیوم کی انتخابی شکست کے بعد سے اس کی سیاسی تاریخ غیر مستحکم رہی ہے۔

حال ہی میں صدر منتخب ہونے والے محمد معیزو نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور منتخب ہونے کے بعد انڈین فوجیوں کو اپنی سرزمین سے نکالنے کے وعدے کو دہرانے کے باوجود مالدیپ نے انڈین فوجیوں کو ملک چھوڑنے کی کوئی آخری تاریخ نہیں دی تھی لیکن نئی کابینہ میں شامل تین وزرا کی جانب سے انڈین وزیراعظم نریندر مودی پر متنازع تبصرہ کرنے کے بعد یہ معاملہ مزید بھڑک اٹھا ہے۔

بہت سے لوگوں نے، خاص طور پر سوشل میڈیا پر، اسے حکومت کی طرف سے ایک سگنل کے طور پر دیکھا کہ انڈیا اشارہ کر رہا ہے کہ اس کا جزیرہ لکشدیپ سیاحت کی جنت مالدیپ کا متبادل ہے، جو اپنی سیاحتی صنعت کے لیے انڈیا پر کافی انحصار کرتا ہے۔

اسی ٹویٹ کے جواب میں مالدیپ کے وزرا نے مودی پر شدید تنقید اور انھیں ’مسخرا‘ تک قرار دیا۔

اسی کشیدگی کے باعث سوشل میڈیا پر انڈین صارفین نے مالدیپ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا اور کئی مشہور شخصیات نے سیاحت کے لیے مالدیپ کی بجائے انڈین جزیرے لکشدیپ جانے کی اپیلیں جاری کیں۔

اس تنازع پر قابو پانے کے لیے معیزو حکومت نے متنازع بیانات دینے والے وزرا کو یہ کہتے ہوئے معطل کر دیا کہ یہ ان کا ذاتی خیال ہے نہ کہ حکومت کا۔

لیکن عوامی طور پر ہونے والی سرگرمیوں سے ہٹ کر مالدیپ میں معیزو حکومت واضح طور پر یہ اشارے دے رہی تھی کہ وہ انڈیا سے اسٹریٹجک طور پر دوری بنا رہا ہے۔

یہ پڑھیں : انڈیا کا اپنےملک کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ

ماہرین کے مطابق یہ انڈیا کے لیے ایک تشویشناک بات ہے کیونکہ وہ بحیرہ عرب اور بحیرہ ہند کے خطے میں اثر و رسوخ کے لیے چین سے مقابلہ کر رہا ہے۔

مالدیپ کی انڈیا سے جغرافیائی قربت اسے اہم بناتی ہے، خاص طور پر اس لیے کہ بحر ہند کا خطہ سمندری سلامتی اور بین البراعظمی تجارت کے لیے اہم ہے۔

معیزو تاہم ’انڈیا آؤٹ‘ کے اپنے مہم کے وعدے کو نبھانے کے لیے پرعزم نظر آ رہے ہیں۔ اپنے پیشروؤں کے برعکس جو روایتی طور پر اپنے پہلے سرکاری دورے کے لیے انڈیا آتے تھے، معیزو نے حلف اٹھانے کے بعد ترکی اور چین کا دورہ کیا ہے۔

دورہ چین سے واپسی کے بعدمعیزو نے انڈیا کا نام لیے بغیر اعلان کیا کہ ’ہمارا ملک چھوٹا ہو سکتا ہے لیکن یہ کسی کو ہم پر دھونس جمانے کا لائسنس نہیں دیتا۔‘

مالدیپ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اس نے ترکی اور چین کے ساتھ کئی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جس سے کھانے اور ادویات جیسی روزمرہ کی ضروریات کے لیے انڈیا پر انحصار کم کیا جا سکے گا۔

ماہرین کے مطابق اگرچہ مالدیپ میں برسراقتدار آنے والی گذشتہ حکومتوں نے بھی چین سے قربت بڑھانے کی کوششیں کی تھیں لیکن مالدیپ کی آخری حکومت، جس میں معیزو ایک وزیر تھے، چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں زیادہ فعال رہی۔ معیزو اسے مزید آگے لے جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں انڈیا نے مالدیپ کی سکیورٹی فورسز کی اکثریت کو تربیت دی اور 1980 کی دہائی میں وہاں ہوئی بغاوت کے دوران ایک بار فوج بھی وہاں بھیجی تھی۔

معیزو کے انڈیا سے دوری کے فیصلے کا تعلق مارچ میں مالدیپ میں ہونے والے آئندہ پارلیمانی انتخابات سے بھی ہو سکتا ہے۔

مالدیپ کے سیاسی تجزیہ کار عظیم ظہیر کے مطابق ’اگر مالے (مالدیپ کا دارالحکومت) دہلی کے ساتھ موجودہ اختلافات کا سفارتی حل تلاش کر رہے ہیں تو صدر کے لیے مالدیپ کے قریبی ساتھی (انڈیا) کو نشانہ بنانے والے عوامی تبصرے کرنا بھی نقصان دہ ہے۔‘

انڈیا میں بھی کئی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مالدیپ کے مقابلے میں طاقتور انڈیا کا رویہ طویل مدت میں باہمی رشتوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

اپنے پیشروؤں کے برعکس مالدیپ کے نئے صدر نے اپنے پہلے سرکاری دورے پر انڈیا جانے کے بجائے چین اور ترکی جانے کا انتخاب کیا ہے

اسٹریٹجک امور کے ماہر سوشانت سنگھ کا کہنا ہے کہ ’آپس کی لڑائی میں دو لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ معیزو کو ’چینی ایجنٹ‘ کہنا انڈیا کے اسٹریٹجک مفادات میں مدد نہیں کرتا۔‘

اگرچہ انڈیا مغربی دنیا کے ساتھ اپنے مفادات کا سودا کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں پڑوسیوں کے ساتھ اس کے رشتوں نے اس کی غیر ملکی سفارتکاری پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔

انڈیا کے پاکستان اور چین کے ساتھ کشیدہ تعلقات واضح ہیں لیکن کئی بار اسے نیپال اور سری لنکا کے ساتھ بھی نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو انڈیا اور چین کے درمیان مکمل طور پر ایک فریق کا ساتھ دے کر ایک دوسرے سے سودے بازی کرنے کی اپنی طاقت کو کم کرنے سے گریزاں ہیں۔

بنگلہ دیش کے بھی روایتی طور پر انڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں لیکن وہ انڈیا یا چین کے ساتھ مکمل طور پر صف بندی کرنے سے پرہیز کرتا ہے۔

ماہرین اس حکمت عملی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چھوٹے جنوبی ایشیائی ممالک دونوں ایشیائی قوتوں انڈیا اور چین کے ساتھ اپنے فائدے کے لیے سخت سودے بازی کر رہے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا مکمل طور پر ساتھ نہیں دے رہے۔

میک گل یونیورسٹی سے منسلک محقق ٹی وی پال کے مطابق ’ان ملکوں نے خطے کے اہم ممالک، خاص طور پر چین اور انڈیا، سے اقتصادی مدد حاصل کرنے کے لیے پیچیدہ سودے بازی کی۔‘

وہ ایک ریسرچ پیپر میں مزید لکھتے ہیں کہ ’اس کے باوجود، یہ ممالک دونوں میں سے کسی کے ساتھ فوجی اتحاد بنائے بغیر کافی اقتصادی مدد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔‘

مالدیپ کیا راستہ اختیار کرے گا یہ تو آنے والے ہفتوں میں واضح ہو جائے گا لیکن فی الحال یہ حقیقت ہے کہ یہ دیگر چھوٹے ایشیائی ممالک کا راستہ اختیار کر رہا ہے جو اپنے مفادات کے لیے صرف ایک ملک پر منحصر ہونے سے گریزاں ہیں۔

یہ پڑھیں : بھارت اور مالدیپ کےتعلقات کشیدہ ،بھارتی فوج کو الٹی میٹم

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top