جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

بادلوں پر ہوتی محبت اور ہمارا سماج

27 مئی, 2021 15:18

گزشتہ ہفتے پاکستان کی فضاؤں میں ایک واقعہ ہوا یا پھر کہانی بنائی گئی ، اس کے بارے میں حتمی طور پر کہنا قبل از وقت ہے، کیونکہ ہم پاکستانی خود ساختہ کہانیاں بنانے میں مشہور ہیں۔

واقعہ کچھ یوں تھا کہ نجی طیارےکی ایک فلائٹ 20 مئی کو کراچی سے اسلام آباد جارہی تھی۔ ایسے میں ایک شکایت کنندہ مسافر نے ایک جوڑے کو جو اگلی نشست پر براجمان تھا انھیں غیر اخلاقی حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔

 

پیچھے بیٹھے شخص کو یہ حرکت معیوب لگی اور انھوں نے جہاز کے عملے سے اس کی شکایت کردی۔ایسے میں جہاز کے عملے نے اس جوڑے کو سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے ۔

عملے نےکوئی کاروائی تو نہ کی البتہ انھیں ایک کمبل فراہم کردیا تاکہ دوسرے مسافر بے چینی محسوس نہ کریں اور یہ جوڑے بھی اپنی "کاروائی ” جاری رکھے۔یہ موقف جو اوپر بیان کیا گیاہے یہ شکایات کنندہ کا ہے۔

 

 اس واقعے کو لے کر سوشل میڈیا سمیت ٹوئٹر پر وبال مچ گیا اور باقاعدہ دو اسکول آف تھاٹ نے جنم لیا ،ایک اس کے خلاف تھااور ایک نے ڈھکے چپھے الفاظ میں یہ کہا کہ اس عمل میں کوئی قباحت نہیں۔

 

اس واقعے کو اگر حقیقت مان لیا جائے تو یقیناً پاکستانی معاشرے میں یہ ایک معیوب طرز عمل ہےجو بحرحال قابل مذمت ہے۔ پاکستانی معاشرے میں حیاء اور شرم کا خاص پاس رکھا جاتا ہے البتہ روحانی طور پر اس معاملے میں ہم لوگوں سے زیادہ کوئی کرپٹ نہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال ہماراملک فحش موویزدیکھنے والوں میں سرفہرست ہے ۔ مگر ہم حیاء اور شرم کےسب سے بڑے ٹھیکیدار بھی بنتے ہیں ۔

 

بحرحال، یہ بات میرے لئے انتہائی نامناسب ہوگی کہ میں اپنی فیملی کے ہمراہ ہوں اور مجھے یہ نظارے دیکھنے کو ملے جو ہمارے معاشرتی رویوں کےعکاس نہیں تو میں خود بُرامحسوس کروں گا ۔کیونکہ ہر معاشرے کی ریت، روایت اوراصول ہوتے ہیں اور اس کے خلاف کوئی عمل ہو توبُرا محسوس ہوتا ہے۔یہ بات تو سچ ہے کہ اگر یہ عمل کھلے عام ہوا ہے تو یہ قابل مذمت ہے ۔

 

 

اس تصویر کا دوسرا رُخ دیکھتے ہیں۔ شکایت کنندہ شخص نے فلائٹ کے اختتام پر ایک تحریری شکایت کی۔مگر دوسری جانب 2 گھنٹے کی فلائٹ میں شکایت کنندہ شخص کو یہ یاد نہیں آیا کہ وہ ویڈیو بنالیں ۔ویڈیو سوشل میڈیا کے لئے نہیں بلکہ شکایت کےثبوت کے لئے، ویسے پاکستانیوں کا کیمرا تو ہمہ وقت تیار رہتا ہے ۔

 

 

اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے ایک شخص کے علاوہ کسی دوسرے شخص نے یہ عمل دیکھا نہیں اور اگر دیکھا بھی تو شکایت نہ دوران فلائٹ کی اور نہ بعد از فلائٹ۔

 

اچھا تیسری بات یہ بھی ہے کہ جہاز کی سیٹ کے درمیان بہت معمولی سا فاصلہ ہوتا ہےاور سیٹ کافی اونچی ہوتی ہے جس سے آگے والے کا سر بھی نظر نہیں آتا، مگرموصوف کےمطابق تمام کاروائی وہ مسلسل ملاحظہ فرماتے رہیں ، ممکن ہے یہ عمل ان صاحب کو دکھانے کے لئے کیا جارہا ہو۔یہ تمام باتیں ممکن ہے جس طرح شکایت کنندہ کی درج شکایت۔

 

اس بارے میں پڑھیں : اخلاق سے عاری قوم

 

جہاز کی بات چھوڑئیے ،آپ نے انٹر سٹی بس میں اکثر سفر کیا ہوگا ۔ اس بس میں اکثر آپ نے ایسے مناظر دیکھیں ہونگے کہ جب میاں بیوی یا بہن بھائی اس انداز میں سورہے ہوتےہیں

کہ کبھی کسی کا سر کسی کی گود میں ہوتا ہےتو کبھی کسی کا سر کسی کے کاندھے پر۔

 

کیونکہ سفر لمبا ہوتا ہے اور وہ آرام کررہےہوتے ہیں اوریہ معاملہ بھی بہت سے لوگوں کو معیوب لگ رہا ہوتا ہے ۔یہ منظر جہاز میں بھی بہت عام ہے کیونکہ بہت سے لوگ تھکان کا شکار ہوتے ہیں اور وہ آرام کررہے ہوتے ہیں مگر بہت سے لوگوںکو اس طرح سونا بھی فحاشی معلوم ہوتا ہے اب وہ رشتہ آخرمحرم ہی کیوں نہ ہو۔

 

Image

 

اس واقعے کے بہت سے پہلو نکل سکتے ہیں ۔اب شکایت کنندہ شخص کے نزدیک ممکن ہے فحاشی کا مطلب اس انداز میں سونا ہواور اس سونے کے انداز کو وہ فحاشی اور معیوب حرکت سمجھتا ہو۔

بحرحال اگرکھلے عام ایسی حرکت ہوئی ہے تو یہ معاشرتی لحاظ سے قابل مذمت عمل ہے اور اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا ۔

 

البتہ اس معاشرے میں بہت سے اخلاقی اصول ہے مگر اس کے بارے میں کوئی نہیں بولتا۔ اخلاقی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے تو اسی فلائٹ میں ایسے مرد بھی ہونگے جو مسلسل کسی لڑکی کو گھور رہے ہونگے، ممکن ہے کوئی مرد خاتون ائیر ہوسٹس کے ساتھ فلرٹ کررہا ہو، ممکن ہے آس پاس بیٹھا کوئی مرد اس وقت اپنی گفتگو میں ماں بہن کی گالی دے رہا ہو، ممکن ہے کہ اس فلائٹ میں اس جوڑے کو دیکھ کر شکایت کنندہ نے ان کے بارے میں مغلظات بکے ہواور ان کے محرم رشتے کو حرام کاری سے تشبہیہ دی ہو۔

 

اس بارے  میں جانئے : واٹس اپ برادری کے ہوشیاری

 

باتیں تو بہت سی ممکن ہے مگر ہماری قوم کا مسئلہ ہے کہ ہم عام اور بنیادی اخلاق اصول کو بھی اپنی مرضی سے منتخب کرتے ہیں اور پھر اس پر ایسی ایسی تاویل دیتے ہیں کہ ہم سے بڑاجیسے کوئی اخلاق پسند ہوہی نہیں سکتا۔ لیکن یہ بات بالکل حق ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اور وقتی طور پر اخلاقی اصول مرتب کرتے ہیں اور پھر ا ُس پر اڑ جاتے ہیں۔

 

نوٹ : جی ٹی وی نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

 

[simple-author-box]

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top