جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

اسرائیل کی پشت پناہی ، امریکا سمیت مغرب میں اہم اور بڑے افراد کے استعفے

06 نومبر, 2023 15:33

 

اسلام آباد: نیویارک ٹائمز، سی این این اور دیگر میڈیا اداروں میں ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ امریکا اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک میں قانون سازوں، صحافیوں، ماہرین تعلیم اور اہم عہدوں پر تعینات افراد کی جانب سے استعفے دینے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔

استعفا دینے والے افراد غزہ میں بچوں، بوڑھوں، معصوم افراد، ڈاکٹرز، صحافیوں اور دیگر افراد کیخلاف اسرائیلی مظالم کی حمایت میں بنائی جانے والی پالیسیوں کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

مختلف میڈیا اداروں کی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیویارک ٹائمز کی مصنفہ جازمین ہیوز نے اسرائیل غزہ جنگ کے خلاف احتجاجی خط پر دستخط کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ اپنے کام کیلئے کئی ایوارڈز جیتنے والی ہیوز نے رواں سال اسی طرح کا ایک اور خط بھی لکھا تھا۔

دو دن قبل ہی انہوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں ایک خط لکھ کر اور غزہ میں ڈھائے جانے والے مظالم کیخلاف لکھ کر ادارے کی پالیسی کی خلاف ورزی کی تھی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے حوالے سے انہوں نے ایک آن لائن پٹیشن بھی شائع کی تھی جسے ’’رائٹرز اگینسٹ وار‘‘ نامی گروپ نے شائع کیا تھا اور اس پٹیشن پر سیکڑوں افراد نے آن لائن دستخط بھی کیے تھے۔

دوسری جانب نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے حقوق انسانی کے ایک ڈائریکٹر کریگ موکھیبر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ انہوں نے غزہ کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دیا کہ عالمی ادارہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام ہو رہا ہے اور غزہ میں شہریوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، امریکا، برطانیہ اور یورپ والے سب اس قتل عام میں ملوث ہیں۔ اپنے خط میں ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ روانڈا میں توتسی قبیلے، بوسنیا میں مسلمانوں، عراقی کردستان میں یزیدی کمیونٹی اور میانمر میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام روکنے میں ناکام ہو چکا ہے۔

اس استعفوں میں 23؍ اکتوبر کو برطانیہ میں مرکزی اپوزیشن جماعت کے فلسطینی نژاد برطانوی رکن اور ماہر تعلیم کامل ہواش نے استعفیٰ دیدیا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی لیبر پارٹی کو چاہئے کہ وہ تاریخ میں سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کرے۔ اس ضمن میں انہوں نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر ایک کھلا خط اپنی جماعت کے نام لکھا۔ انہوں نے کہا کہ لیبر پارٹی ایسے یہودی ارکان کو پارٹی سے نکال رہی ہے جو فلسطینیوں کے حق میں بیانات دے رہے ہیں۔

دوسری جانب، امریکی محکمہ خارجہ کے ڈائریکٹر جاش پاؤل نے امریکی فوجی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ دیا اور کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل حمایت نقصان دہ ہے۔ جاش پاؤل غیر ملکی حکومتوں کو اسلحے کی منتقلی کے بیورو سے تعلق رکھتے ہیں اور گزشتہ 11؍ برسوں سے کانگریس اور پبلک افیئرز بیورو سے وابستہ تھے۔

اسی طرح معروف آرٹ میگزین آرٹ فورم کے ایڈیٹر ان چیف ڈیوڈ ویلاسکو کو ملازمت سے فارغ کیے جانے کے بعد ادارے کے کئی دیگر ایڈیٹرز نے بھی استعفیٰ دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ڈیوڈ ولاسکو نے میگزین میں فلسطین کے حق میں آرٹیکل شائع کیا تھا۔

ان کے علاوہ، برطانیہ میں تحقیق کیلئے فنڈنگ دینے والے کے ادارے سے سات ماہرین تعلیم نے بھی استعفیٰ دیدیا ہے۔ برطانیہ میں ریسرچ اینڈ اینوویشن کمیٹی سے تعلق رکھنے والے ان ماہرین تعلیم نے بھی فلسطینیوں کے حق میں استعفیٰ دیا۔

اس کے علاوہ، برطانیہ میں بلیک برن کونسلر ساج علی نے بھی فلسطین پر پارٹی کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے لیبر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے، ناٹنگھم کاؤنٹی سے تعلق رکھنے والے کونسلر ڈیس گبنز نے بھی استعفیٰ دیدیا ہے اور اب وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے سیاست میں حصہ لیں گے۔

بتایا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے استعفیٰ دینے والے کونسلرز کی تعداد 36؍ ہو چکی ہے۔ دریں اثنا، ہارورڈ یونیورسٹی کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن، اسرائیلی ارب پتی اور دنیا کے 80ویں امیر ترین شخص سمجھے جانے والے ایدان اوفر نے بھی احتجاج ایگزیکٹو بورڈ سے استعفیٰ دیدیا ہے۔

گزشتہ روز اپنے بیان میں ایدان اور ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی پر بھروسہ نہیں رہا اور اب وہ ہارورڈ اور اس کی کمیٹیوں کی حمایت نہیں کر پائیں گے۔ ایدان اور ان کی اہلیہ ہارورڈ کے کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ کے ایگزیکٹو بورڈ کا حصہ تھے۔ آئیوی لیگ یونیورسٹی میں پیش آنے والا یہ اپنی نوعیت کا واقعہ ہے جہاں لوگوں نے فلسطین نواز گروپ کیخلاف کیے گئے اقدامات پر احتجاج کیا ہے۔

علاوہ ازیں، آسٹریلیا میں یونیورسٹی آف سڈنی میں یونین سیکریٹری نے یہ کہتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے کہ قیادت بہت زیادہ حد تک سیاست زدہ ہو چکی ہے اور فلسطین کے ساتھ ہمدردی کرنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ م

تیونس کے مشہور صحافی بسام بوئینی نے برطانوی نشریاتی ادارے سے استعفیٰ دیدیا ہے کیونکہ وہ غزہ پر ادارے کی نشریاتی پالیسی سے مطمئن نہیں تھے۔

یہ پڑھیں : مولانا فضل الرحمان کی حماس رہنماؤں سے ملاقات، مسئلہ فلسطین پر تبادلہ خیال

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top