جمعہ، 20-ستمبر،2024
جمعہ 1446/03/17هـ (20-09-2024م)

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ،کوشش ہے آج کیس کا اختتام کردیں: چیف جسٹس

03 اکتوبر, 2023 14:56

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کےخلاف دائر درخوستوں پر سماعت جاری ہے جس کوسرکاری ٹیلی ویژن کے ذریعے براہ راست نشر کیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔

کیس کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ آج اس کیس کو ختم کر دیں، ایک کیس کو ہی لےکر نہیں بیٹھ سکتے، سپریم کورٹ میں بہت سے کیسز التوا کا شکار ہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس قانون کا اثر چیف جسٹس اور سینئر ججز پر ہوتاہے، ایک طرف چیف جسٹس کا اختیار کم نہیں تو محدود کیا جا رہا ہے، دوسری جانب یہی اختیار دو سینئر ججز میں بانٹا جا رہا ہے، اس کا اثر آنے والے ججز پر بھی ہوگا، اسی لئے ہم نے چاہا کہ فل کورٹ اس کی کیس کی سماعت کرے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ سب نے اپنے جوابات قلمبند کر دیئے ہیں، ہمارے سامنے اٹارنی جنرل اور سینئر وکلاء ہیں ہم سب کو سنیں گے۔

سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ مناسب سمجھیں تو اٹارنی جنرل کو درخواست گزاروں کے بعد سنیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے تحریری دلائل ہم پڑھ لیں گے باقی چیدہ چیدہ باتیں دلائل میں کریں، آپ نے کوئی ایک شق پڑھنی ہے تو پڑھ لیں۔

وکیل اکرام چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ اپنے مینڈیٹ سے نکل کرعدالتی معاملے میں داخل ہوئی جس پر چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا عدالت کی آزادی ایک نایاب چیز ہے؟، یا عدالت کی آزادی لوگوں سے جڑی ہوتی ہے،آپ عدالت کی آزادی کو جوڑ نہیں پا رہے۔

وکیل نے کہا کہ جس پارلیمنٹ نےایساکام کیااس کےپاس یہ اختیار نہیں تھا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کےدلائل کیا اخباری خبروں کی بنیاد پر ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کارروائی کاریکارڈ موجود نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا آپ نے ریکارڈ لینے کیلئے اسپیکرقومی اسمبلی کولکھا؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ جی نہیں، ہم نے اسپیکر قومی اسمبلی کو ریکارڈ کیلئے نہیں لکھا۔

قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ا سپیکرآپ کو ریکارڈ دیتے ہیں یا نہیں وہ الگ معاملہ ہے، پھر برائے مہربانی یہ گراونڈ عدالت کے سامنے نہ رکھیں۔

اکرام چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون کی شق تین سپریم کورٹ کے اختیارات پر تجاوز ہے ، سیکشن فائیو پہلے ہوچکیں فیصلوں پر اپیل کا حق بھی دے رہی ہے، پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم سے ہی ایسا کر سکتی ہے ، یہ قانون کچھ شخصیات سے متعلق مخصوص کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایسا یہ قانون کہتا ہے یا آپ کی رائے ہے ؟

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ قانون کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو بلڈوز کیا گیا، وہ کام کرنےکی کوشش کی گئی جو پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار نہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کیا کہ آپ ایک پٹیشنر ہیں، پوری قوم کے نمائندہ نہ بنیں، آپ کسی کے خلاف الزام تراشی نہیں کرسکتے، یہ بھول جائیں کہ اخبارات نے کیا لکھا، اپنے کیس پر دلائل دیں، آپ سپریم کورٹ کو سیاسی بحث کیلئے استعمال نہیں کر سکتے۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پارلیمان نے اختیارسے تجاوز کیا، یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئینی ترمیم جیسا اثر رکھنے والا قانون بنایا گیا۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میری استدعا ہی یہی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ انصاف تک رسائی کا قانون پارلیمنٹ کیسے نہیں بنا سکتی؟

جسٹس سردار طارق نے بھی یہی سوال اٹھایا کہ بتائیں نا قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کیسے نہیں رکھتی؟۔

اکرام چوہدری نے دلائل کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم سے ہی یہ کام کر سکتی تھی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین سپریم کورٹ کو رولز بنانے کی اجازت دیتا ہے،آرٹیکل 191 کے تحت یہ اختیارات استعمال کیے جا سکتے ہیں،جب ایک اختیار آئین کی شق دیتی ہے تو اس سے تقدس جڑا ہے،آرٹیکل 191 یہ اختیار پارلیمنٹ کو نہیں سپریم کورٹ کو دیتا ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے وکیل درخواست گزار کے سامنے دو سوال رکھے، کہا بتائیں کیا پارلیمنٹ یہ ایکٹ بنانے کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں، یہ استفسار بھی کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین کی کس شق سے متصادم ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نےسماعت کے دوران ریمارکس دیئےکہ سادہ سی 2 باتیں بتانی ہیں آپ نے ، کیا پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ یہ ایکٹ بنا سکے، پٹیشن سے تو لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کا اختیار آپ مان رہے ہیں، سادہ سی بات بتا دیں کہ یہ ایکٹ آئین کی فلاں شق سے متصادم ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ مارشل لاء کے خلاف بھی درخواستیں لایا کریں وہاں کیوں نہیں آتے؟، جب مارشل لگتا ہے تو سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں، یہاں کتنی تصاویرلگی ہیں؟ اس وقت بھی آپ یہ درخواستیں لایا کریں نہ، اس وقت سب حلف بھلا دیتے ہیں، پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آ جاتا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل حسن عرفان خان نے دلائل دیئے کہ پارلیمان سپریم ضرور ہے لیکن آئین کے بھی تابع ہے، چیف جسٹس، وزیراعظم ، صدر تینوں نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ حلف میں آئین کےساتھ قانون کا بھی ذکر ہے اسے مدنظر رکھیں، پارلیمنٹ تو کہہ رہی ہے ہم سپریم کورٹ کو مزید اختیار دے رہے ہیں،پارلیمنٹ تو کہہ رہی ہے ہم نے اپیل کا حق دے دیا،184/3 کے تحت اختیارات کا بے دریغ استعمال ہوتا رہا،چینی کی قیمت کیا ہویا کوئی بھی فیصلہ کردیں تو کیا اس کیخلاف اپیل نہیں ہونی چاہیے؟ ۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگرقانون کا مقصد انصاف تک رسائی ہےتوفل کورٹ کیخلاف اپیل کا حق کیوں نہیں حاصل ہوگا؟کیا فل کورٹ کےخلاف اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں؟جس پر وکیل حسن عرفان خان نے جواب دیا کہ قانون سازوں کے ذہن میں شاید یہ سوال کبھی آیا ہی نہیں تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اپیل کا حق برقراررکھنےکا ایک مطلب یہ ہےکہ فل کورٹ یا لارجر بینچ کا راستہ بلاک ہوگیا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کوتکلیف کیا ہو رہی ہےاس قانون سے ؟ ، جس پر وکیل حسن عرفان نے کہا کہ آئین پر عمل نہیں کیا گیا۔

جسٹس منصورنے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ آرٹیکل 191 کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بناسکتی ہے؟،ڈائریکٹ سوال یہ ہے کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کر سکتی ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی نہیں، رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ تو آرٹیکل 191 ہی قانون کا اختیار پارلیمنٹ کو بھی دیتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سوال ہے کہ کیسے آرٹیکل 191 قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس کو پڑھیں، رولز کی پاور سپریم کورٹ کو ہی دی گئی ہے، آئین اور پہلے سے موجود قانون کی بات کی گئی کہ اسکے مطابق رولز بنیں گے، اس سے رولز کے اختیارات پارلیمنٹ کو نہیں مل جاتے۔

وکیل حسن عرفان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے وکیل عُزیر بھنڈاری نے دلائل کا آغاز کیا اور موقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے مگر وہ مشروط ہے،کیا صرف آرٹیکل191کااختیارقانون سازی کےطورپرلیاجاسکتاہے؟، میرا جواب ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا،آرٹیکل 142 قانون سازی کے اختیار کو آئین سےمشروط کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج مصنوعی ذہانت جیسی چیزیں آچکی ہیں جن کا آئین میں ذکر نہیں،کیا پارلیمنٹ اب اس سے متعلق قانون ہی نہیں بنا سکتی؟۔

جس پر عذیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ وفاقی قانون سازی فہرست کے علاوہ کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی،انہوں نے امریکا کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ امریکی عدالت کو چھوڑیں، اپنے آئین کی بات کریں۔

عزیر بھنڈاری کا جواباً کہنا تھا کہ میں سوالوں کے جواب دے سکتا ہوں یا پھر اپنے دلائل ، میں 2 سماعتوں سے سن ہی رہا ہوں اب مجھے بھی بولنے دیں۔

بعدازاں چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے طریقے سے دلائل دیں، میں معذرت خواہ ہوں۔

جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت ہمیں ایک غیر معمولی اختیار دیاگیا ہے،کیا ایکٹ کے ذریعے اس اختیار کو وسیع کیا گیا ہے یا کم؟،جو نیا اختیار دیا گیا ہے وہ اسی سپریم کورٹ کے اندر ہی دیا گیا،اس عمارت سے باہر کسی اور کو اختیارات منتقل نہیں کئے گئے،آپ بتائیں اس ایکٹ سے سپریم کورٹ کے اختیارات کم کیسے ہوئے؟

سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔

 یہ پڑھیں : پریکٹس پروسیجر ایکٹ، مجھے ایسا اختیار نہیں چاہیے جس سے ملک کو نقصان ہو: چیف جسٹس

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top